جمعه، دی ۰۹، ۱۳۹۰

غزل : اب کرم ہو کہ یہ اتمامِ کرم رہنے دے

اب کرم ہو کہ یہ اتمامِ کرم رہنے دے
دلِ مجبور میں کچھ حسرتِ غم رہنے دے

کوئی رہتا ہے جو با دیدۂ نم رہنے دے
بارِ خاطر ہے اگر لطف و کرم، رہنے دے

کوچۂ یار سے پھر یادوں کی خوشبو آئی
تذکرہ خلد کا اے شیخِ حرم رہنے دے

شوق کی راہ میں حالات کے رخ کو بھی سمجھ
ضبط سے کام بھی لے، اگلا قدم رہنے دے

آشنا لذتِ آزاد سے وہ بھی، دل بھی
کس طرح اس سے کہیں، مشقِ ستم رہنے دے

مسکراہٹ کے حجابوں میں چھپانے والے
غم نمایاں ہی رہے گا اسے غم رہنے دے

جو حوادث کے اندھیروں میں بھی بے نور نہ ہو
یاد کے سینے پہ وہ نقشِ قدم رہنے دے

ٹیڑھی ترچھی سی وہ قسمت کی لکیریں ہیں رفیع
جس طرح کوئی حسیں زلف میں خم رہنے دے
 ______________

دوشنبه، دی ۰۵، ۱۳۹۰

غزل : مری نگاہ کو حسنِ جہاں پکارے گا

مری نگاہ کو حسنِ جہاں پکارے گا
مرے شعور کو عزمِ جواں پکارے گا

چمن سے اٹھ کے چلے جائیں گے جو دیوانے
بہار روئے گی خود باغباں پکارے گا

جو سن رہا ہے فغاں کائنات کے دل کی
قلم اٹھائے تو زورِ بیاں پکارے گا

وہ جس کے ظرف سے قائم ہے میکدے کا نظام
نظر نہ آئے تو پیرِ مغاں پکارے گا

نظر ملا نہ سکے گا عمل سے جب بھی یقیں
تو اس یقین کو اکثر گماں پکارے گا

وہ نازِ بزمِ جہاں ہو کہ ننگِ بزمِ جہاں
بشر کی ذات کو سارا جہاں پکارے گا

ترا کرم تو پکارے گا کیا مرے دل کو
اگر پکارے گا اس کو زیاں پکارے گا

ہر ایک چہرہ کو یوں دیکھتا رہا ہے رفیع
کہ جیسے اس کو کوئی مہرباں پکارے گا
____________

جمعه، دی ۰۲، ۱۳۹۰

غزل : غم کے ماروں پہ زمانے کی نظر بھی ہوگی

غم کے ماروں پہ زمانے کی نظر بھی ہوگی
یہ حقیقت ہے مگر ان کو خبر بھی ہوگی

زیست منزل بھی، سفر بھی ہے حسیں جادہ بھی
زیست کی طرح کوئی راہ گزر بھی ہو گی

بات کہنے کا سلیقہ بھی نمایاں ہوگا
مختصر بات زرا ذود اثر بھی ہوگی

عزمِ اربابِ ادب نظمِ چمن بدلے گا
کارگر کوششِ اربابِ ہنر بھی ہوگی

دل کی دنیا میں بھی طوفان اٹھیں گے لیکن
کوئی جنبش تو پسِ پردۂ در بھی ہوگی

مسکراؤ کہ جوابِ غمِ دوراں ہو جائے
یوں بسر ہونے کو با دیدۂ تر بھی ہوگی

مجھ کو منزل کی طلب میری طلب منزل کو
فکر جو مجھ کو اِدہر ہے وہ اُدہر بھی ہوگی

صرف ماحول بدل جائے یہ ممکن ہے رفیع
یوں چبھن درد کی ہنگامِ سحر بھی ہوگی
____________________



سه‌شنبه، آذر ۲۹، ۱۳۹۰

غزل : یہ نہیں ہے کہ کہیں ہم کو ستمگر نہ ملے

یہ نہیں ہے کہ کہیں ہم کو ستمگر نہ ملے
فرق اتنا ہے کہ ہر ہاتھ میں پتھر نہ ملے

اتنا مایوس ہوں امید کے ہر وعدے سے
جیسے آواز دوں اور کوئی گھر پر نہ ملے

ایسا لگتا ہے کہ منزل کی طرف جاۓگا
راستہ ایسا کہ جس پر کوئی رہبر نہ ملے

میکدے میں وہ کوئی دور ہو دیکھا ہے یہی
رونقِ بزم وہی تھے جنھیں ساغر نہ ملے

مجھ کو منزل پہ پہنچنے کی خوشی کیا ہو رفیع
روکنے والا اگر راہ میں پتھر نہ ملے
___________

شنبه، آذر ۲۶، ۱۳۹۰

غزل : ظلم ہوتے رہے کب ہوش سے بیگانہ بنا

ظلم ہوتے رہے کب ہوش سے بیگانہ بنا
التفاتِ نگۂ ناز سے دیوانہ بنا

دل کی بربادی پہ اک لفظ کسی نے نہ کہا
یوں تو سنتے ہیں کہ ہر بات کا افسانہ بنا

دورِ حاضر نے جِلا بخشی مگر جسموں کو
جس کو بننا تھا وہی آئینہ جیسا نہ بنا

زندگی لائقِ تنقید سہی پھر بھی اسے
یہ ضروری ہے کہ شکوۂ بے جا نہ بنا
______________


سه‌شنبه، آذر ۲۲، ۱۳۹۰

غزل : دلوں میں جذبۂ نفرت ہے کیا کیا جاۓ

دلوں میں جذبۂ نفرت ہے کیا کیا جاۓ
زباں پہ دعویِٰ الفت ہے کیا کیا جاۓ

ہزار قسم کے الزام سن کے بھی چپ ہیں
ہمارا جرم شرافت ہے کیا کیا جاۓ

نہ دشمنوں سے عداوت نہ دوستوں کا لحاظ
اسی کا نام صداقت ہے کیا کیا جاۓ

ہمارے سینے میں پتھر نہیں ہے اے لوگو!
ہمیں بھی پاسِ محبت ہے کیا کیا جاۓ

دوکانِ علم و ہنر کیوں سجا نہ لے کوئی
یہ رازِ عزت و شہرت ہے کیا کیا جاۓ

یہ اک خلش یہ تجسس یہ حسرتوں کا ہجوم
اسی سے زیست عبارت ہے کیا کیا جاۓ

بدل کے دیکھے بھی اسلوب، تشنگی نہ کوئی
دل و نظر کی حکایت ہے کیا کیا جاۓ

میں خود خلوص سے اپنے بہت پریشاں ہوں
اب اس کی کس کو ضرورت ہے کیا کیا جاۓ

زمانہ سازی کو دنیا ہنر کہے لیکن
جب اس خیال سے نفرت ہے کیا کیا جاۓ
____________

جمعه، آذر ۱۸، ۱۳۹۰

غزل : دل کو وقفِ غم و آلام بنایا جاۓ

دل کو وقفِ غم و آلام بنایا جاۓ
یہ اشارا تو کسی سمت سے پایا جاۓ

میرے غم خانے پہ ہر روز ہے آہٹ کیسی
کون آتا ہے اسے آج بلایا جاۓ

یوں میرے ساتھ رہا کرتے ہیں غم دنیا کے
جیسے ہمراہ کسی شخص کے سایا جاۓ

کوئی مقصد ہو تو پھر دار بھی کچھ بات نہیں
یوں اگر شور مچانا ہے مچایا جاۓ

ہائے مجبوریِ حالات کہ اب کہتا ہوں
میرا معیار مرے پاس نہ لایا جاۓ

جن کو بس فکرِ کم و بیش ہے کیا ان سے کہیں
میکدہ ساز کوئی ہو تو بلایا جاۓ

خیر انجام محبت نہ ہو بس میں نہ سہی
بس میں یہ بھی تو نہیں اُن کو بھلایا جاۓ
______________



دوشنبه، آذر ۱۴، ۱۳۹۰

غزل : غیر ممکن تو نہیں صاحب عرفاں ہونا

غیر ممکن تو نہیں صاحبِ عرفاں ہونا
شرط ہے سنگِ ملامت پہ بھی خانداں ہونا

چھوڑ کر لالہ ؤ گل خار بداماں ہونا
آج کے دور میں دشوار ہے انساں ہونا

دورِ حاضر پہ یہ اک طنز نہیں پھر کیا ہے
کوئی انسان نظر آئے تو حیراں ہونا

عین فطرت ہے جنھیں غم ہی ملے ہوں ان کو
کوئی امید نظر آئے تو حیراں ہونا

اپنے حالات کی زنجیر بھی دیکھو لوگو!
سب کی قسمت میں کہاں نازشِ دوراں ہونا

دورِ جمہور میں بھی جرم ہے حیرت ہے یہی
ایک نادار کے دل میں کوئی ارماں ہونا

حد سے احساس کے بڑھنے کا ہے انجام رفیع
اپنی ہستی کے لئے آپ ہی زنداں ہونا
 ______________

پنجشنبه، آذر ۱۰، ۱۳۹۰

غزل : پھر وہی ذکرِ غمِ یار یہ قصّہ کیا ہے

پھر وہی ذکرِ غمِ یار یہ قصّہ کیا ہے
ایک ہی بات پہ اصرار یہ قصّہ کیا ہے

کچھ بتا جذبۂ بیدار یہ قصّہ کیا ہے
آرزوۓ رسن و دار یہ قصّہ کیا ہے

دل میں کیوں آرزوۓ زخم نے کروٹ بدلی
التفاتِ نگۂ یار یہ قصّہ کیا ہے

دب کے ماحول سے ہرحال میں سمجھوتہ کیوں
غیرتِ جذبۂ خوددار یہ قصّہ کیا ہے

غم نصیبوں کا سوال آتا ہے جب بھی یارو
کیوں بدل جاتے ہیں معیار یہ قصّہ کیا ہے

رہنما کس کو کہیں کس کو لٹیرا سمجھیں
سب کا ہے ایک سا کردار یہ قصّہ کیا ہے

اجنبی شخص کے بارے میں خدا جانے کیوں
میں نے سوچا ہے کئی بار یہ قصّہ کیا ہے

خود پرستوں کے لئے عشق و نشاطِ عالم
حق پرستوں کے لئے دار یہ قصّہ کیا ہے

جب انھیں کوئی تعلق نہیں ہم سے تو رفیع
ان کا غم کیوں ہے وفادار یہ قصّہ کیا ہے
_____________



یکشنبه، آذر ۰۶، ۱۳۹۰

غزل : بیانِ درد بہ ایں حالِ زار کیا ہوگا

بیانِ درد بہ ایں حالِ زار کیا ہوگا
نہ مجھ کو ہوش نہ دل کو قرار کیا ہوگا

شکستِ بندوسلاسل کی اک صدا کے سوا
کوئی پیام بہ نامِ بہار کیا ہوگا

محبتوں کے یہ بادل بہ شکل دیدہٴ تر
برس بھی جائیں سرِ کوہسار کیا ہوگا

ترے سلوک سے ایسا نہ ہو کہ دیوانے
یہ سوچنے لگیں انجام کار کیا ہوگا

نظر سے ہم سنایا ہے دل کا حال رفیع
اب اس سے بڑھ کے کوئی اختصار کیا ہوگا
_________


چهارشنبه، آذر ۰۲، ۱۳۹۰

غزل : خفا ہے کوئی کسی سے نہ کوئی بدظن ہے

خفا ہے کوئی کسی سے نہ کوئی بدظن ہے
ہر ایک شخص یہاں آپ اپنا دشمن ہے

کسی غریب کا گھر ہے بس اور کیا کہئے
یہ میرا دل جو سبھی آفتوں کا مسکن ہے

وہ زندگی جسے خونِ جگر دیا میں نے
وہ زندگی تو مرے نام سے بھی بدظن ہے

خدا کا شکر ہے غم کی ہواؤں میں بھی رفیع
چراغِ زبست بہرحال آج روشن ہے
__________


جمعه، آبان ۲۷، ۱۳۹۰

نظریں اٹھائیں بھی تو محافظ تھی احتیاط

نظریں اٹھائیں بھی تو محافظ تھی احتیاط
شائستہ جنوں وہ اشارا نہ ہو سکا

امید کے بغیر بھی جینا محال تھا
امید ہی پہ صرف گزارا نہ ہو سکا



غزل : اپنے غرور و ناز پہ شرما گئی ہَوا

اپنے غرور و ناز پہ شرما گئی ہَوا
دیکھا خرامِ ناز تو گھبرا گئی ہَوا

اک آن میں نسیم ہے اک آن میں سموم
شاید مزاجِ یار سے شہ پا گئی ہَوا

لگتا ہے جیسے سانس بھی لیتی نہیں فضا
یہ کس کے انتظار میں پتھرا گئی ہَوا

چھائی گھٹا تو یادوں سے جلنے لگا بدن
بارش ہوئی تو آگ سی برسا گئی ہَوا

لائی پیامِ یار کبھی بوۓ پیرہن
تسکین دے گئی کبھی تڑپا گئی ہوا

بدمست ہوکے جیسے کوئی رند آ گیا
چھو کر کسی کے ہونٹوں کو یاد آ گئی ہَوا

وہ ضد ہے روشنی سے کہ الله کی پناہ
روشن جہاں چراغ ہوا آ گئی ہَوا

یکشنبه، آبان ۰۸، ۱۳۹۰

غزل : بتا نہ منزلِ جاناں کا راستہ مجھ کو

بتا نہ منزلِ جاناں کا راستہ مجھ کو
بہت ہے شوق فراواں کا حوصلہ مجھ کو

خود اپنے شعروں پہ اکثر گماں گزرتا ہے
سنا رہا ہے کوئی جیسے واقعہ مجھ کو

جنوں نواز اداؤں کے روبرو یارو!
نہ اب ہے ضبط کا یارا، نہ حوصلہ مجھ کو

تلاشِ دوست کی راہیں عجیب راہیں ہیں
کہ قربتوں میں بھی لگتا ہے فاصلہ مجھ کو

مرا خلوص مری زندگی کا حصّہ ہے
کسی کا طرز عمل اس سے واسطہ مجھ کو

میں راہِ زیست میں تنہا کبھی نہیں رہتا
کسی کی یادوں کا ملتا ہے قافلہ مجھ کو

پنجشنبه، آبان ۰۵، ۱۳۹۰

غزل : سلوکِ دوست سے بیزار کیا ہوا ہوں میں

سلوکِ دوست سے بیزار کیا ہوا ہوں میں
خیال یہ ہے بلندی سے گر گیا ہوں میں

بدلتے وقت نے ہر چیز کو بدل ڈالا
خلوص ویسا کہاں ہے جو سوچتا ہوں میں

مجھے لگا ہے کہ تحلیل ہو گیا ہے وجود
کبھی جب ان کے خیالوں میں کھو گیا ہوں میں

محبتوں کا حسیں دور آنے والا ہے
یہ رخ بھی ان کی عداوت کا دیکھتا ہوں میں

مرے شعور میں ماحول کی ہے بے چَینی
نواۓ وقت ہوں اک درد کی صدا ہوں میں

شکایتوں میں گنوانے سے اس کو کیا حاصِل
زرا سا وقت ملا ہے تو آ گیا ہوں میں

رہِ حیات کے ہر موڑ پر یہ لگتا ہے
فریب کار کی باتوں میں آ گیا ہوں میں

اب اپنی زیست کی تپتی ہوئی سی راہوں پر
کسی درخت کے ساۓ کو ڈھونڈھتا ہوں میں

مجھے یہ طرز تجاہل عجیب لگتا ہے
وہ کہہ رہے ہیں کہیں آپ سے ملا ہوں میں

جمعه، مهر ۲۹، ۱۳۹۰

غزل : ایسے زردار سے مزدور صلا مانگے ہے

ایسے زردار سے مزدور صلا مانگے ہے
جیسے ظالم سے کوئی خوفِ خدا مانگے ہے

روحِ تخئیل نۓ ناز و ادا مانگے ہے
جسم الفاظ کی رنگین قبا مانگے ہے

دل کے حالات پہ کچھ بس نہیں چلتا ورنہ
راہِ پُرخار ہر اِک آبلہ پا مانگے ہے

زندگی سے جسے کچھ بھی نہ ملا ہو یارو
وہ بھی دیکھا ہے کہ جینے کی دعا مانگے ہے

اک حسیں شعر کی تخلیق کی خاطر شاعر
حسن والوں سے کوئی ناز و ادا مانگے ہے

اس قدر پیار کا انداز ستم میں ہے کہ اب
بے گناہی بھی گناہوں کی سزا مانگے ہے

اپنا ماحول کہ بس جیسے دھوئیں کے بادل
دل وہ آوارہ کہ آزاد فضا مانگے ہے

آج نفرت کے اندھیروں سے پریشاں ہوکر
عشق کے شعلوں سے انسان ضیا مانگے ہے

اس کو مرنے کا نہ جینے کا سلیقہ ہے رفیع
غم سے گھبرا کے جو مرنے کی دعا مانگے ہے

سه‌شنبه، مهر ۱۲، ۱۳۹۰

غزل : نہ دوستوں کو سناؤ نہ اجنبی سے کہو

نہ دوستوں کو سناؤ نہ اجنبی سے کہو
تمہیں ہے مجھ سے شکایت تو پھر مجھ ہی سے کہو

یہ بات کیا ہے کہ ہر شخص کو شکایت ہے
کسی کے کام تو آۓ یہ زندگی سے کہو

کبھی تو جرأتِ رِندانہ کام میں لاؤ
یہ کوئی بات ہے ہر بات بے بسی سے کہو

بھرم اسی میں ہے ترکِ تعلقات کی بات
نہ ہم کسی کو بتائیں نہ تم کسی سے کہو

نیا خیال، نیا طرز لازمی ہے مگر
کچھ ایسی باتیں بھی ہیں جن کو سادگی سے کہو

جمعه، مهر ۰۸، ۱۳۹۰

غزل : اس دَورمیں نہ کیوں کوئی حیراں دکھائی دے

اس دَور میں نہ کیوں کوئی حیراں دکھائی دے
آسودہ حال جب کوئی انساں دکھائی دے

سہمی ہوئی سی کیوں ہے یہ دوشیزہء حیات
کوئی ادا تو حشر بہ داماں دکھائی دے

منزل کی آرزو ہے تو منزل ہو سامنے
طوفاں دکھائی دے نہ بیاباں دکھائی دے

اظہار آرزو تو کریں اس سے ہم رفیع
اظہار آرزو کا جو امکاں دکھائی دے

پنجشنبه، شهریور ۲۴، ۱۳۹۰

غزل : کہ زندگی کا تصور ہے زندگی کی طرح

کوئی روش تو ہو اپنی بھی اس سے کیا حاصل
کبھی کسی کی طرح ہیں کبھی کسی کی طرح

وصال روح نہیں ہے تو دل کی بے چینی
کچھ اور بڑھتی ہے احساس تشنگی کی طرح

حیات عشق میں ایسا بھی دور آتا ہے
کہ التفات بھی لگتا ہے بے رخی کی طرح

وفور شوق کا عالم ارے معاذ الله
کہ زندگی کا تصور ہے زندگی کی طرح

جمعه، شهریور ۱۱، ۱۳۹۰

غزل : ایک میں پیکرِ تسلیم و رضا ہو جیسے

ایک میں پیکرِ تسلیم و رضا ہو جیسے
ایک تم دشمنِ ارباب وفا ہو جیسے

یوں مجھے ان کی عنایت کا خیال آتا ہے
ایک افسانہ کبھی میں نے پڑھا ہو جیسے

زندگی اتنی گراں بار نظر آتی ہے
ایک مجرم کے لئے کوئی سزا ہو جیسے

دل کے گوشے میں تمناؤں کی فریادیں ہیں
یا کہیں رات گئے شور اٹھا ہو جیسے

ایسے بیگانۂ حالات وہ رہتے ہیں رفیع
کچھ کیا ہو نہ کہا ہو نہ سنا ہو جیسے

چهارشنبه، شهریور ۰۲، ۱۳۹۰

غزل : جب جنوں حد سے بڑھا آ گیا ویرانے میں

جب جنوں حد سے بڑھا آ گیا ویرانے میں
عزت نفس تو ہے آپ کے دیوانے میں

زندگی کا وہ کرم ہے کہ زرا فرق نہیں
بادۂ ناب ہو یا زہر ہو پیمانے میں

کچھ تعلق تو ہے باقی کہ کبھی رات گئے
ایک سایہ سا نظر آتا ہے غم خانے میں

ہر حقیقت کو عطا کیجئے حسن تخیل
کچھ حقیقت بھی ملا دیجئے افسانے میں

کسی بے سوچے سے آغاز کا انجام ہے وہ
مدتیں گزریں ہیں جس عقدے کو سلجھانے میں

جو حقائق کے اجالوں کو گوارا نہ ہوئی
قابل ذکر وہی بات تھی افسانے میں

کیا ضروری ہے کہ ہر شخص ہو ممنون کرم
فرق باقی تو رہے اپنے میں بیگانے میں

دوشنبه، مرداد ۳۱، ۱۳۹۰

دل اس سے گریزاں کیوں نہ ہو

احترم لے نہیں، آداب سے نوشی نہیں
یہ ہے میخانہ تو دل اس سے گریزاں کیوں نہ ہو

وقت کو ضد ہے کہ شمع عشق بجھنی چاہیے
دل سمجھنا چاہتا ہے یہ فروزاں کیوں نہ ہو