دلوں میں جذبۂ نفرت ہے کیا کیا جاۓ
زباں پہ دعویِٰ الفت ہے کیا کیا جاۓ
ہزار قسم کے الزام سن کے بھی چپ ہیں
ہمارا جرم شرافت ہے کیا کیا جاۓ
نہ دشمنوں سے عداوت نہ دوستوں کا لحاظ
اسی کا نام صداقت ہے کیا کیا جاۓ
ہمارے سینے میں پتھر نہیں ہے اے لوگو!
ہمیں بھی پاسِ محبت ہے کیا کیا جاۓ
دوکانِ علم و ہنر کیوں سجا نہ لے کوئی
یہ رازِ عزت و شہرت ہے کیا کیا جاۓ
یہ اک خلش یہ تجسس یہ حسرتوں کا ہجوم
اسی سے زیست عبارت ہے کیا کیا جاۓ
بدل کے دیکھے بھی اسلوب، تشنگی نہ کوئی
دل و نظر کی حکایت ہے کیا کیا جاۓ
میں خود خلوص سے اپنے بہت پریشاں ہوں
اب اس کی کس کو ضرورت ہے کیا کیا جاۓ
زمانہ سازی کو دنیا ہنر کہے لیکن
جب اس خیال سے نفرت ہے کیا کیا جاۓ
____________

هیچ نظری موجود نیست:
ارسال یک نظر