رفیع میاں گھر کے اندر اور باہر
عبدالله ولی بخش قادری
بدایوں کے حدود میں سورج ڈوبتے ہی کچھ شعر و ادب کے ستارے مختلف راہوں پر نمودار ہونے لگتے ہیں اور تھوڑی دیر میں ان کا جھرمٹ مشن اسکول کے سامنے سر راہے دیکھا جا سکتا ہے. یہ گھنٹہ گھر اور سبزی منڈی کے درمیان کا حصّہ ہے جو کہ شہر کے سب سے زیادہ ہماہمی والے کاروباری علاقے کے مغربی سرے کی حیثیت رکھتا ہے. اس کے درمیان سے ریڑھ کی ہڈی کی طرح وحید روڈ گزرتی ہے. گرمئ بازار گھٹنے کے ساتھ ساتھ گرمئ گفتار بڑھتی جاتی ہے. غمِ جاناں اور غمِ دوراں کا ذکر چھڑ جاتا ہے. حکایت اور شکایت کے مزے اٹھاۓ جاتے ہیں. سخن سنجی کی داد یا فریاد ہونے لگتی ہے. غرض کہ ادب اور زندگی کے سائل پہلو بدل بدل کر گفتگو کا موضوع قرار پاتے رہتے ہیں. اس دوران تقویت رسائی کے خیال سے قلب کو گریانے کے لئے چائے کی پیالی گردش میں لائی جاتی ہے. اس صحبت یاراں کی نوعیت کو بیان کرنے کے لئے نشست یا 'محفل' جیسے بندھے ٹکے الفاظ ناکافی ہیں. ایسا کرنے سے نہ صرف حقیقت کی خلاف ورزی ہو جائے گی بلکہ اس جھرمٹ کی شان قلندری پر بھی حرف آنے کا اندیشہ ہے. بہرکیف کسی نام سے یاد کیجئے یہ کاروبار روزانہ دو ڈھائی گھنٹے اس بھرے بازار میں جاری رہتا ہے.
اگر بعد مغرب رفیع میاں سے ملاقات درکار ہو تو انھیں اسی جھرمٹ میں پائیے گا. ان کی آواز آپ شاید قریب آ کر بھی نہ سن پائیں کیونکی وہ بلند آہنگ نہیں ہیں. لیکن دور سے انھیں پہچانا جا سکےگا اس لئے کہ وہ حسب معمول ہی رہا کرتے ہیں. وہی چھوٹی موری کا پائجامہ، شیروانی اور اسی کپڑے کی ٹوپی. داڑھی موچھیں صاف. وہی ڈھیلے ڈھالے دبلے سے. دس پندرہ برس بعد بھی دیدار ہو تب بھی اطمینان رکھیے کہ آپ کو ان کو پہچاننے میں کوئی دقت پیش نہیں آۓ گی. دراصل بات یہ ہے کہ عرصے سے انھوں نے اپنی وضع قطع کو 'معیار بند' کر رکھا ہے.
رفیع میاں لغوی اور اصطلاحی دونوں معنوں میں پکے وضح دار کہلانے کے مستحق ہیں. انھوں نے جو چولا اختیار کیا ہے اور جس چال چلن کو پکڑا ہے اسی پر سلامت روی کے ساتھ قائم ہیں. انھیں ایک متمول گھر کے واحد چشم و چراغ ہونے کی بنا پر ایک رنگیلا اور سجیلا نوجوان بننا چاہیے تھا اور اب ایک آرام طلب اور عیش کوش ادھڑ عمر کے آدمی کے رنگ روپ میں دکھائی دینا چاہیے تھا. لیکن وہ اپنی زندگی کے ہر دور میں سادگی پسند اور جفاکش رہے. بدایوں سے ہائی اسکول پاس کرنے کے بعد اعلٰی تعلیم کے لئے وہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی گئے. وہاں سے ١٩٥١ء میں انھوں نے ایم اے اور ایل ایل بی کی سندیں حاصل کیں. علی گڑھ کے قیام میں ان کا ساتھ اپنے ہم عمر چچا فرید بخش قادری کا رہا جو نہایت شستہ اور شائستہ مزاق سخن رکھنے کے ساتھ ساتھ اپنے شایان شان بڑی سج دھج سے رہا کرتے تھے اور ان کا حلقہ احباب بڑا وسیع و وقیع تھا. لیکن رفیع میاں نے ان سے بھی کچھ رنگ نہیں پکڑا. تعلیم سے فراغت حاصل کرنے کے بعد وہ فوراً ہی پیلی بھیت کے صدیق نیشنل انٹر کالج میں استاد بن گئے. وہاں کی زندگی کو بھی انھوں نے اپنی ملازمت کی حیثیت پر ہی رکھا اور اس آسودگی سے بے نیاز رہے جو اپنے گھر سے حاصل کر سکتے تھے. ١٩٦٧ء میں اپنے والد مولوی قیوم بخش صاحب کے وفات کے بعد خانگی ذمہ داریوں کے پیش نظر انھوں نے اپنی خدمات کو حافظ صدیق اسلامیہ انٹر کالج بدایوں میں منتقل کرا لیا.
رفیع میاں کی پیدائش ١٩٢٩ء کی ہے. وہ مجھ سے دو سال چھوٹے ہیں. ہم دونوں نے ہائی اسکول کٹ کی تعلیم بدایوں میں ہی حاصل کی ہے. لیکن ہم دونوں کے اسکول الگ الگ تھے اور وہ مجھ سے ایک جماعت پیچھے تھے. مگر ایک ہی خانوادے کے بچے ہونے کی وجہ سے بہت کچھ نشترک تھا. اس زمانے میں ان کے دادا اور میرے تاؤ خان بہادر مولوی وحید بخش صاحب مرحوم و مغفور میونسپل بورڈ، بدایوں کے چیرمین تھے اور شہر کے نہایت ممتاز فرد کی حیثیت رکھتے تھا. وحید روڈ کا ذکر شروع میں آ چکا ہے. یہ سڑک ان ہی کی ایک یادگار ہے. رفیع میاں کے والد صاحب اپنے پیشے کے اعتبار سے وکیل تھے اور اپنی خوش دلی کی بنا پر ایک مقبول شخصیت کے مالک، میں نے انھیں ہمیشہ شعر گنگناتے پایا. ان کا حفظ غضب کا تھا اور وہ بزرگان دین سے والہانہ عقیدت رکھتے تھے. ایسا لگتا ہے کہ اپنے قیوم مرحوم کی یہ صفات رفیع میاں کے اندر بھی سرایت کر گئی ہیں.
قیوم بھائی مرحوم کو میں نے ہمیشہ رفیع میاں کے ناز اٹھاتے ہوۓ پایا. ان کی شخصیت پر اپنی والدہ کی تربیت کی چھاپ بڑی گہری نظر آتی ہے جن کی ذات میں عزم و استقلال اور ضابطہ پرستی کی جھلک نمایاں رہی ہے. اکلوتی اولاد کو تحفظ زندگی کی بنا پر خودسر یا سہاراطلب ہو جانے کے یکساں امکانات لاحق رہتے ہیں. رفیع میاں کے محتاط رویے، ان کی طبعیت کی خاموشی اور کم آمیزی کے بارے میں یہ قیاس دشوار نہیں رہ جاتا کہ وہ کس کی دین ہیں.
١٩٥٤ء میں رفیع میاں کی ازدواجی زندگی کا آغاز ہوا. ان کی رفیقۂ حیات میں ہندوستانی عورت کی جاں نثاری، شوہر پرستی اور بے زبانی کا جیتا جاگتا روپ نظر آتا ہے. ان کی ایک بیٹی ہے اور چار بیٹے. بیٹی کی شادی ہو گئی ہے اور ایک دو سال کی گڑیا سے انھیں کھیلنے اور نانا میاں سننے کی مسرت بھی نصیب ہے. اب الله نے انھیں ایک نواسا اور دیا ہے. ان کے دو بیٹے انجینئر ہیں اور ایک بیٹا ڈاکٹر. سب سے چھوٹا زیر تعلیم ہے. قابل لحاظ املاک بھی ہے اور قابل رشک نیک نامی بھی. لہٰذا یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ ایک آسودہ حال اور مطمئن زندگی کے جملہ و سائل اور لوازم انھیں میسر ہیں.
رفیع میاں اپنی شاعری کا سنہ آغاز ١٩٧٢ بتاتے ہیں. اس حساب سے انھیں تازہ واردان بساط ہواۓ دل ہی قرار دیا جاےگا. لیکن کلام کی پختگی کچھ اور ہی غمازی کرتی ہے. غالباً یہ کشید نہاں خانہٴ دل میں عرصہ سے تیار ہوتی رہی ہے. مگر بعض نفسیاتی عوامل کی بنا پر وہ اظہار بستگی کا شکار رہے ہیں. اب ایسا لگتا ہے کہ "تندی صہبا" کا زور اور وطن کی نغمہ پرور فضا دونوں مل کر ان کے دل کی گرہ کھولنے کا باعث ہوئے اور خوش فکر و خوش نظر احباب کی پزیرائی نے انھیں جرات اظہار عطا کر دی.
مجھے یہ دیکھ کر حیرت آمیز مسرت ہوئی کہ اتنی کم مدت میں ان کی شاعری میں اتنا نکھار آ گیا ہے. وہ رموز و علائم کے رمز شناس نظر آتے ہیں اور ان کے انتخاب میں پاس و وضع اور روشنی تبع دونوں کا حسین امتزاج ملتا ہے. ان کی قدرت اظہار اور شگفتگئ بیان کو دیکھتے ہوئے ان کی شاعری کے بارے میں نفسیاتی اصطلاح میں یہ کہنا ہوگا کہ وہ اپنی سنی عمر سے کہیں زائد ذہنی عمر رکھتی ہے. ان کے یہاں جذبہ کا ارتفاع بھی ملتا ہے اور فکر کی بلندی بھی. بلا شبہ ان کے کلام میں ان کی نکھری ستھری زندگی کا پرتو نمایاں ہے. وہ اپنے اشعار لوازم شاعرانہ سے بے نیاز رہ کر سناتے ہیں پھر بھی ان کے محاسن اپنی طرف متوجہ کئے بغیر نہیں رہتے اور سخن فہم حضرات سے خراج تحسیں ضرور پاتے ہیں. ان کے کلام پر ایک نظر ڈال کر یہ اطمینان بھی ہوا کہ ابھی بدایوں کی سخن پرور سر زمین نے اپنی زرخیری زائل نہیں کی ہے.
عبدالله ولی بخش
٤٤ – اے، اوکھلا، نئی دہلی