مقدمہ

پروفیسر آل احمد سرور

رفیع بخش قادری بدایونی جس خاندان کے چشم و چراغ ہیں اس میں ایک مذہبی ماحول کے ساتھ ساتھ ادبی ذوق بھی برابر رہا ہے. ان کے پردادا (اور میرے نانا) مولوی حامد بخش بدایوں کی میونسپٹی کے وائس چیرمین اور شہر کے چوٹی کے رئیسوں میں تھے. ان کے کئی نعتیہ دیوان شائع ہوئے تھے جن میں سے ایک صنعت غیر منقوطہ میں بھی تھا. بعد میں پتہ چلا کہ دراصل یہ مولوی علی بخش شرر کا کلام تھا جو انہوں نے اپنے بھتیجے کے نام سے شائع کرایا تھا. مولوی علی بخش شرر کو آج ادبی دنیا صرف سر سید کے ایک مخالف کی حیثیت سے جانتی ہے. مگر وہ اپنے زمانے کے ممتاز عالم، مصنف، شاعر اور تزکرہ نگار تھے. ہو سکتا ہے کہ مولوی حامد بخش خود بھی شعر کہتے ہوں. بہرحال شعر و شاعری سے ان کی گہری دلچسپی یقینی ہے. ان کے بڑے صاحبزادے اور رفیع بخش کے دادا خان بہادر مولوی وحید بخش بڑے طنطنے کے آدمی تھے. میونسپٹی کے چیرمین بھی راہے تھے. خود شعر نہیں کہتے تھے مگر ہزاروں شعر یاد تھے. مشاعروں میں شرکت نہ کرنے کے باوجود شعراء کو اپنے یہاں بلا کر ان سے ان کا کلام سنتے. ان کے یہاں شام کی نشستوں میں شاعری کا دور بھی ہوتا تھا. رفیع بخش کے والد مولوی قیوم بخش بڑے باغ و بہار آدمی تھے. پیشہ وکالت تھا مگر شاعری سے دلچسپی خاندانی روایت سے بھی کچھ زیادہ تھی. بلا مبالغہ ہزاروں شعر یاد تھے اور بعض شعراء کی پوری پوری غزلیں حفظ تھیں. آخر میں خود بھی شعر کہنے لگے تھے. ان کا نعتیہ کلام میں نے دیکھا ہے.

غرض رفیع بخش کو مذہبی ماحول کے ساتھ ایک ادبی ذوق بھی ورثے میں ملا. باپ کے انتقال تک کسی کو علم نہ تھا کہ وہ شعر بھی کہتے ہیں. مگر زیر نظر کلام کی پختگی سے اندازہ ہوتا ہے کہ عرصے سے کہہ راہے ہیں. وہ زیادہ تر بدایوں کے مشاعروں اور ادبی حلقوں میں اپنا کلام سناتے ہیں. مگر ان کی غزلیں ملک کے ممتاز ادبی رسالوں میں شائع ہو چکی ہیں. یہ مجموعہ جو "لفظ و بیان" کے نام سے موسوم ہے غزلیات پر ہی مشتمل ہے. ایسا معلوم ہوتا ہے کہ نظم کی طرف انھوں نے بالکل ہی توجہ نہیں کی اور صرف غزل کو اپنے اظہار کا ذریعہ بنایا. بدایوں کے ادبی ماحول میں غزل سب سے مقبول صنف سخن رہی ہے. یہ علم نہ ہو سکا کہ انھوں نے کسی سے اصلاح لی ہے یا نہیں، لیکن مجھے زبان کی لغزشیں خال خال ہی نظر آئیں. عام طور پر کلام شگفتہ، رواں، پرکیف اور دلکش ہے.

اس دور میں زرا لمبی ردیفیں جو خیال کو کسی وقت، حالت، ذہنی کیفیت کے دائرے میں لے آتی ہیں. ایک طرف اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہیں کہ یہ غزلیں کسی طرح مشاعرے کے لئے نہیں کہی گئیں تو دوسری طرف شاعر کے مخصوص تجربے اور افتاد تبع کا بھی پتہ دیتی ہیں. بہرحال ان میں ایک تازگی ضرور محسوس ہوتی ہے.

رفیع بدایونی کی غزل کا رنگ و آہنگ تو کلاسیکی ہے. ان کے تجربات میں بھی زندگی اور حسن و عشق کی مانوس عکاسی ملتی ہے. مگر ان کی زبان اور ان کے لہجے میں اس دور کی حسیت بھی جھلکتی ہے. کہیں کہیں براہ راست کچھ سیاسی اور کچھ اخلاقی نکتے بھی بیان ہو گئے ہیں. یہ بھی اکثر غزل میں مل جاتا ہے مگر براہ راست اظہار غزل کے بالواسطہ اظہار پر کبھی حاوی نہیں ہونا چاهئے. شکر ہے کہ رفیع بھی اس عیب سے اپنا دامن بچا لے گئے ہیں. ان کے یہاں حالات کا کرب تو ہے مگر یہ کرب نشتریت لئے ہوۓ ہے. انھوں نے اپنی بات اکثر سلیقے سے کہی ہے اور لطافت بیان کو بڑی حد تک برقرار رکھا ہے. حسن کی جھلک ان کے یہاں براہ راست نہیں ملتی. اگر ملتی ہے تو حسن مجبور کی. عشق کی امیدیں، آرزویئں، حسرتیں، مجبوریاں، ناکامیاں اور ناکامیوں پر ایک طرح کا صبر، یہ سب ملتا ہے اور دل میں جو سوز و گداز پیدا ہو گیا ہے وہی ان کی خصوصیت ہے.

مجھے یقین ہے کہ ارباب نظر اس دلکش مجموعے کا قرار واقعی خیرمقدم کریں گے.

پروفیسر آل احمد سرور