شعری ادب سے دلچسپی طالب علمی کے زمانے سے ہی رہی ہے. ١٩٥١ء میں تعلیم ختم کرنے کے بعد پیلی بھیت کے صدیق نیشنل انٹر کالج میں لیکچرر کی حیثیت سے ملازمت شروع کی. وہاں اسٹاف میں کئی احباب اچھے شعر سننے کے لئے میری طرح بے چین رہتے تھے. نتیجہ یہ ہوا کہ مشاعروں اور شعری نشستوں میں پابندی کے ساتھ شریک ہوتا رہا حالاں کہ اس وقت شعر نہیں کہتا تھا. اس کے علاوہ ادب کی پیاس بجھانے کو کالج میں چھوٹی سی لائبریری تھی وہ آج بھی یاد آ جاتی ہے.
١٩٦٧ء میں والد صاحب قبلہ مولوی قیوم بخش صاحب قادری کا اچانک حرکتِ قلب بند ہو جانے سے انتقال ہو گیا. خدا انھیں جنت میں جگہ دے. اب بے شمار ذمہ داریوں کا سامنا کرنا تھا. پیلی بھیت سے تبادلہ کروانے کے بعد حافظ صدیق اسلامیہ انٹر کالج بدایوں میں کام کرنے لگا. یہاں ایک عجیب واقعہ پیش آیا. میں نے سلمان صہبا صاحب سے جو میرے کرم فرما بھی ہیں اور ساتھی بھی، یہی کہہ رکھا تھا کہ شعری نشست ہو تو مطلع کریں تاکہ یہاں کے شعرا کا کلام سننے کا موقع مل جائے. صہبا صاحب نے بزم عشرت کی طرف سے ہونے والے ایک طرحی مشاعرے کی اطلاع دی. میں نے پہلی بار شعر کہنے کی کوشش کی اور پانچ یا سات شعر کہہ لئے. مشاعرے میں شریک ہوا اور صہبا صاحب کے کہنے پر وہ اشعار پڑھ بھی دیۓ. بعد کو اپنی غلطی کا احساس ہوا. شعرا کی بزم میں شرکت اتنے کم سرمایہ کے ساتھ خود کو بھی عجیب معلوم ہوئی. اس دن سے اس وقت تک اس سرمایۂ کو بڑھانے کی کوشش میں لگا ہوا ہوں. یہ مجموعہ اسی کوشش کا نتیجہ ہے.
آخر میں صرف یہ کہہ کر اجازت چاہوں گا کہ مجھے پوری طرح احساس ہے کہ یہ سفر کا آغاز ہے اور منزل ابھی دور ہے. لیکن پڑھنے والوں کی محبت اور اپنی محنت پر بھروسہ کر رکھا ہے. یقین ہے الله انجام بخیر کرے گا.
رفیع بخش قادری