اب کرم ہو
کہ یہ اتمامِ کرم رہنے دے
دلِ مجبور
میں کچھ حسرتِ غم رہنے دے
کوئی رہتا
ہے جو با دیدۂ نم رہنے دے
بارِ خاطر
ہے اگر لطف و کرم، رہنے دے
کوچۂ یار
سے پھر یادوں کی خوشبو آئی
تذکرہ خلد
کا اے شیخِ حرم رہنے دے
شوق کی راہ
میں حالات کے رخ کو بھی سمجھ
ضبط سے کام
بھی لے، اگلا قدم رہنے دے
آشنا لذتِ
آزاد سے وہ بھی، دل بھی
کس طرح اس
سے کہیں، مشقِ ستم رہنے دے
مسکراہٹ کے
حجابوں میں چھپانے والے
غم نمایاں
ہی رہے گا اسے غم رہنے دے
جو حوادث
کے اندھیروں میں بھی بے نور نہ ہو
یاد کے سینے
پہ وہ نقشِ قدم رہنے دے
ٹیڑھی
ترچھی سی وہ قسمت کی لکیریں ہیں رفیع
جس طرح
کوئی حسیں زلف میں خم رہنے دے
______________

هیچ نظری موجود نیست:
ارسال یک نظر