یہ نہیں ہے
کہ کہیں ہم کو ستمگر نہ ملے
فرق اتنا
ہے کہ ہر ہاتھ میں پتھر نہ ملے
اتنا مایوس
ہوں امید کے ہر وعدے سے
جیسے آواز
دوں اور کوئی گھر پر نہ ملے
ایسا لگتا
ہے کہ منزل کی طرف جاۓگا
راستہ ایسا
کہ جس پر کوئی رہبر نہ ملے
میکدے میں
وہ کوئی دور ہو دیکھا ہے یہی
رونقِ بزم
وہی تھے جنھیں ساغر نہ ملے
مجھ کو
منزل پہ پہنچنے کی خوشی کیا ہو رفیع
روکنے والا اگر راہ میں پتھر نہ ملے
___________

هیچ نظری موجود نیست:
ارسال یک نظر