مری نگاہ
کو حسنِ جہاں پکارے گا
مرے شعور
کو عزمِ جواں پکارے گا
چمن سے اٹھ
کے چلے جائیں گے جو دیوانے
بہار روئے گی
خود باغباں پکارے گا
جو سن رہا
ہے فغاں کائنات کے دل کی
قلم اٹھائے
تو زورِ بیاں پکارے گا
وہ جس کے
ظرف سے قائم ہے میکدے کا نظام
نظر نہ آئے
تو پیرِ مغاں پکارے گا
نظر ملا نہ
سکے گا عمل سے جب بھی یقیں
تو اس یقین
کو اکثر گماں پکارے گا
وہ نازِ
بزمِ جہاں ہو کہ ننگِ بزمِ جہاں
بشر کی ذات
کو سارا جہاں پکارے گا
ترا کرم تو
پکارے گا کیا مرے دل کو
اگر پکارے
گا اس کو زیاں پکارے گا
ہر ایک
چہرہ کو یوں دیکھتا رہا ہے رفیع
کہ جیسے اس کو کوئی مہرباں پکارے گا
____________

هیچ نظری موجود نیست:
ارسال یک نظر