جمعه، دی ۰۲، ۱۳۹۰

غزل : غم کے ماروں پہ زمانے کی نظر بھی ہوگی

غم کے ماروں پہ زمانے کی نظر بھی ہوگی
یہ حقیقت ہے مگر ان کو خبر بھی ہوگی

زیست منزل بھی، سفر بھی ہے حسیں جادہ بھی
زیست کی طرح کوئی راہ گزر بھی ہو گی

بات کہنے کا سلیقہ بھی نمایاں ہوگا
مختصر بات زرا ذود اثر بھی ہوگی

عزمِ اربابِ ادب نظمِ چمن بدلے گا
کارگر کوششِ اربابِ ہنر بھی ہوگی

دل کی دنیا میں بھی طوفان اٹھیں گے لیکن
کوئی جنبش تو پسِ پردۂ در بھی ہوگی

مسکراؤ کہ جوابِ غمِ دوراں ہو جائے
یوں بسر ہونے کو با دیدۂ تر بھی ہوگی

مجھ کو منزل کی طلب میری طلب منزل کو
فکر جو مجھ کو اِدہر ہے وہ اُدہر بھی ہوگی

صرف ماحول بدل جائے یہ ممکن ہے رفیع
یوں چبھن درد کی ہنگامِ سحر بھی ہوگی
____________________



هیچ نظری موجود نیست:

ارسال یک نظر