دوشنبه، آذر ۱۴، ۱۳۹۰

غزل : غیر ممکن تو نہیں صاحب عرفاں ہونا

غیر ممکن تو نہیں صاحبِ عرفاں ہونا
شرط ہے سنگِ ملامت پہ بھی خانداں ہونا

چھوڑ کر لالہ ؤ گل خار بداماں ہونا
آج کے دور میں دشوار ہے انساں ہونا

دورِ حاضر پہ یہ اک طنز نہیں پھر کیا ہے
کوئی انسان نظر آئے تو حیراں ہونا

عین فطرت ہے جنھیں غم ہی ملے ہوں ان کو
کوئی امید نظر آئے تو حیراں ہونا

اپنے حالات کی زنجیر بھی دیکھو لوگو!
سب کی قسمت میں کہاں نازشِ دوراں ہونا

دورِ جمہور میں بھی جرم ہے حیرت ہے یہی
ایک نادار کے دل میں کوئی ارماں ہونا

حد سے احساس کے بڑھنے کا ہے انجام رفیع
اپنی ہستی کے لئے آپ ہی زنداں ہونا
 ______________

هیچ نظری موجود نیست:

ارسال یک نظر