دل کو وقفِ غم و آلام بنایا جاۓ
یہ اشارا تو کسی سمت سے پایا جاۓ
میرے غم خانے پہ ہر روز ہے آہٹ کیسی
کون آتا ہے اسے آج بلایا جاۓ
یوں میرے ساتھ رہا کرتے ہیں غم دنیا کے
جیسے ہمراہ کسی شخص کے سایا جاۓ
کوئی مقصد ہو تو پھر دار بھی کچھ بات نہیں
یوں اگر شور مچانا ہے مچایا جاۓ
ہائے مجبوریِ حالات کہ اب کہتا ہوں
میرا معیار مرے پاس نہ لایا جاۓ
جن کو بس فکرِ کم و بیش ہے کیا ان سے کہیں
میکدہ ساز کوئی ہو تو بلایا جاۓ
خیر انجام محبت نہ ہو بس میں نہ سہی
بس میں یہ بھی تو نہیں اُن کو بھلایا جاۓ
______________

هیچ نظری موجود نیست:
ارسال یک نظر