پنجشنبه، آذر ۱۰، ۱۳۹۰

غزل : پھر وہی ذکرِ غمِ یار یہ قصّہ کیا ہے

پھر وہی ذکرِ غمِ یار یہ قصّہ کیا ہے
ایک ہی بات پہ اصرار یہ قصّہ کیا ہے

کچھ بتا جذبۂ بیدار یہ قصّہ کیا ہے
آرزوۓ رسن و دار یہ قصّہ کیا ہے

دل میں کیوں آرزوۓ زخم نے کروٹ بدلی
التفاتِ نگۂ یار یہ قصّہ کیا ہے

دب کے ماحول سے ہرحال میں سمجھوتہ کیوں
غیرتِ جذبۂ خوددار یہ قصّہ کیا ہے

غم نصیبوں کا سوال آتا ہے جب بھی یارو
کیوں بدل جاتے ہیں معیار یہ قصّہ کیا ہے

رہنما کس کو کہیں کس کو لٹیرا سمجھیں
سب کا ہے ایک سا کردار یہ قصّہ کیا ہے

اجنبی شخص کے بارے میں خدا جانے کیوں
میں نے سوچا ہے کئی بار یہ قصّہ کیا ہے

خود پرستوں کے لئے عشق و نشاطِ عالم
حق پرستوں کے لئے دار یہ قصّہ کیا ہے

جب انھیں کوئی تعلق نہیں ہم سے تو رفیع
ان کا غم کیوں ہے وفادار یہ قصّہ کیا ہے
_____________



هیچ نظری موجود نیست:

ارسال یک نظر