جنوں نواز
نگاہوں میں حوصلہ نہ رہا
خِرد کے
دور میں کچھ دل سے واسطہ نہ رہا
ہمارے حق
میں زمانے کا فیصلہ نہ رہا
زبان و دل
میں اگر کوئی فاصلہ نہ رہا
کھڑے تھے
سہمے ہوئے میکدے کے پاس وہی
کہ جن میں
زیست سے لڑنے کا حوصلہ نہ رہا
لٹا کے
دولتِ صبر و قرار آئے ہیں
خلش ہو جس
کی کوئی ایسا حادثہ نہ رہا
حقیقتوں نے
طلسمِ فریب توڑ دیا
مگر حسین
خیالوں کا سلسلہ نہ رہا
سیاہ چہروں
پہ نازاں ہیں لوگ کیوں شاید
کسی کے
سامنے اب کوئی آئینہ نہ رہا
بڑھوں تو
شہر ِملامت رکوں تو دشتِ جنوں
کدھر کو جاؤں کہ اب کوئی راستہ نہ رہا
_____________

هیچ نظری موجود نیست:
ارسال یک نظر