چهارشنبه، بهمن ۰۵، ۱۳۹۰

غزل : جب اپنی ذات کو سمجھا تو کوئی ڈر نہ رہا

جب اپنی ذات کو سمجھا تو کوئی ڈر نہ رہا
جہاں میں کوئی پر ستار ِ اہل ِ زر نا رہا

سڑک کے کانٹے کہ جن پر لہو کے چھینٹے ہیں
بتا رہے ہیں کہ اک شخص رات گھر نہ رہا

بدلتی قدرتوں میں خونِ جگر سے نامۂ شوق
یہ خاص طرز ِ نگارش بھی معتبر نہ رہا

نگاہِ ناز ہے مایوس کس طرف جائے
وہ اہل ِ دل نہ رہے حلقۂ اثر نہ رہا

خوشی کے لمحوں سے کیفِ دوام کیا ملتا
وہ رقص ِ جام بھی دیکھا جو رات بھر نہ رہا

لچک تھی جن میں وہ پودے تو اب بھی باقی ہیں
ہوا کی زد پہ جو آیا وہی شجر نہ رہا

زرا سی دیر میں منزل کو پا لیا اس نے
وہ جس کے سر پہ کہیں سایۂ شجر نہ رہا

خِرد کا دل سے تعلق نہ کوئی رشتہ ہے
وہ ہم خیال بھی کب تھا جو ہم سفر نہ رہا
___________
Rafi Badayuni

هیچ نظری موجود نیست:

ارسال یک نظر