جب اُن کے
کوچۂ جنّت نشاں سے آئے ہیں
غموں کو
فکر ہوئی ہے کہاں سے آئے ہیں
اندھیری
رات کو کہنا تھا دن، تو کہہ دیتے
مصیبتوں
میں خود اپنے بیاں سے آئے ہیں
جو داستان ِجہاں
میں حسین ہیں عنواں
سب ایسے
نام مری داستاں سے آئے ہیں
انھیں
شکایتِ بے مہریِ زمانہ کیا
خراب حال
جو اپنے مکاں سے آئے ہیں
یہ سانحات
جو دنیاۓ دل کا ہیں حصّہ
یہ سانحات
بھی نظمِ جہاں سے آئے ہیں
سنیں گے
ریت کی موجوں کے رخ کی باتیں بھی
زرا ٹھہر
کہ ابھی گلستاں سے آئے ہیں
بنالے ذات
کا محبس تو یہ بھی اچھا ہے
کہ تنگ ہم
بھی دلِ بدگماں سے آئے ہیں
اب ان کو
دل میں جگہ دے کہ کوئی ٹھکرا دے
پیام امن تو ہندوستاں سے آئے ہیں
_______________

هیچ نظری موجود نیست:
ارسال یک نظر