کبھی خود کو
حقیقت اور کبھی وہم و گماں سمجھے
ہماری ذات
کیا ہے اس کو اب تک ہم کہاں سمجھے
وہاں آوار گان
شوق کی حسرت ہے منزل کو
یہاں یہ
ہیں کہ ہر کوشش کو سعیِ رائیگاں سمجھے
زمانے کی روش
پر تبصرہ تھا جانے کیوں اس کو
وہ اپنا
تذکرہ سمجھے ہم اپنی داستاں سمجھے
اشاروں کے حسیں
ملبوس میں الفاظ کے پیکر
کوئی طرزِ
بیاں دیکھے کوئی لطفِ زباں سمجھے
حصارِ ذات
کی مضبوط دیواریں گرا دی ہیں
اب اس جذبہ
کو جو چاہے خلوصِ دوستاں سمجھے
مری وحشت
مذاقِ عام کب ہے پھر بھی یہ دنیا
سمجھتی ہے
اگر آوارۂ کوۓ بتاں سمجھے
کبھی قوسِ
قزح دیکھی تو آنچل کا گماں گزرا
کہیں تارا
کوئی ٹوٹا تو قلبِ ناتواں سمجھے
زمیں سے
آسماں تک آسماں سے عرشِ اعظم تک
ہماری
داستاں کیا ہے اسے سارا جہاں سمجھے
کہیں بھی
جب دھواں دیکھا نہ جانے کیوں رفیعٌ اسکو
کبھی ہم
اپنا دل سمجھے کبھی اپنا مکاں سمجھے
________________
![]() |
| Rafi Badayuni |

هیچ نظری موجود نیست:
ارسال یک نظر