چهارشنبه، بهمن ۱۹، ۱۳۹۰

غزل : زیست سایہ ہی نہیں دھوپ کی تلوار بھی ہے

زیست سایہ ہی نہیں دھوپ کی تلوار بھی ہے
بزم ِ احباب بھی ہے مجمع ِ اغیار بھی ہے

یہ بھی تسلیم کہ وہ غم کا طلبگار بھی ہے
دل اگر دل ہے تو پھر کوئی دل آزار بھی ہے

رسن و دار سجانے کو سجاۓ رکھئے
یہ بھی دیکھا کہ کوئی صاحبِ کردار بھی ہے

بو الہوس کو بھی محبت کا ہے دعویٰ لیکن
اس محبت میں کہیں جذبۂ ایثار بھی ہے

کوچۂ یار کے مشتاق نے یہ بھی سوچا
رسن و دار کا پہلے وہ طلبگار بھی ہے
______________

Rafi Badayuni

هیچ نظری موجود نیست:

ارسال یک نظر