چهارشنبه، آذر ۰۲، ۱۳۹۰

غزل : خفا ہے کوئی کسی سے نہ کوئی بدظن ہے

خفا ہے کوئی کسی سے نہ کوئی بدظن ہے
ہر ایک شخص یہاں آپ اپنا دشمن ہے

کسی غریب کا گھر ہے بس اور کیا کہئے
یہ میرا دل جو سبھی آفتوں کا مسکن ہے

وہ زندگی جسے خونِ جگر دیا میں نے
وہ زندگی تو مرے نام سے بھی بدظن ہے

خدا کا شکر ہے غم کی ہواؤں میں بھی رفیع
چراغِ زبست بہرحال آج روشن ہے
__________


هیچ نظری موجود نیست:

ارسال یک نظر