دوشنبه، مرداد ۳۱، ۱۳۹۰

دل اس سے گریزاں کیوں نہ ہو

احترم لے نہیں، آداب سے نوشی نہیں
یہ ہے میخانہ تو دل اس سے گریزاں کیوں نہ ہو

وقت کو ضد ہے کہ شمع عشق بجھنی چاہیے
دل سمجھنا چاہتا ہے یہ فروزاں کیوں نہ ہو

هیچ نظری موجود نیست:

ارسال یک نظر