کوئی شریک غم دوستاں نہیں ملتا
میں ڈھونڈھتا ہوں مگر مہرباں نہیں ملتا
وہ ان کے لطف و کرم ہوں کہ اپنی تیرہ شبی
فسانۂ غم دوراں کہاں نہیں ملتا
یہ ان کی بزم نہیں ہے یہ بزم رنداں ہے
یہاں کسی سے کوئی بدگماں نہیں ملتا
یہ شہر، شہر ستم گر نہیں تو پھر کیا ہے
سکون دل کسی عنواں یہاں نہیں ملتا
زرا بھی جرأت فرہاد ہو تو دنیا میں
غم و ملال کا کوہ گراں نہیں ملتا
جو میرے ذہن کی تصویر کے مطابق ہو
مجھے تو آج وہ ہندوستاں نہیں ملتا
یہی بہت ہے محبّت کی زندگی کے لئے
وہ مہرباں نہ سہی بدگماں نہیں ملتا
یہ میرا جذب محبت، خلوص مہر و وفا
میں کس کی نزر کروں قدرداں نہیں ملتا
نصیب تجھ کو بھی عرفان غم ہوا ہے رفیع
بیان درد بہ طرز فغاں نہیں ملتا
هیچ نظری موجود نیست:
ارسال یک نظر