جمعه، مرداد ۲۸، ۱۳۹۰

نعت شریف

جسے ہے عشق وہ پایا گیا مدینے میں
کہ وہ کہیں بھی رہے دل رہا مدینے میں

وہی اثر جو دعا سے کبھی گریزاں تھا
دعا کو ڈھونڈھتا پایا گیا مدینے میں

اکیلے کرنا ہے تم کو یہ واپسی کا سفر
ہمارے دل نے یہ ہم سے کہا مدینے میں

زمیں پہ کوئی بھی ذرّہ نظر نہیں آتا
بچھی ہے تاروں کی ایسی ردا مدینے میں

وہ شوق دید کا عالم عجیب عالم تھا
کہ سایہ جسم سے آگے چلا مدینے میں

خیال روضۂ شاہِ امم کی عمر دراز
کہ اس خیال نے پہنچا دیا مدینے میں

سکون زیست جہاں میں کہیں نہیں ملتا
جو کہہ سکو تو یہ کہنا ذرا مدینے میں

نئی بہار سے آغاز دن کا ہوتا ہے
ہر ایک روز ہے منظر نیا مدینے میں

دعا کے ہاتھوں سے چہرہ چھپا رہا تھا رفیع
گناہگار تھا کرتا بھی کیا مدینے میں

هیچ نظری موجود نیست:

ارسال یک نظر