جمعه، مهر ۲۹، ۱۳۹۰

غزل : ایسے زردار سے مزدور صلا مانگے ہے

ایسے زردار سے مزدور صلا مانگے ہے
جیسے ظالم سے کوئی خوفِ خدا مانگے ہے

روحِ تخئیل نۓ ناز و ادا مانگے ہے
جسم الفاظ کی رنگین قبا مانگے ہے

دل کے حالات پہ کچھ بس نہیں چلتا ورنہ
راہِ پُرخار ہر اِک آبلہ پا مانگے ہے

زندگی سے جسے کچھ بھی نہ ملا ہو یارو
وہ بھی دیکھا ہے کہ جینے کی دعا مانگے ہے

اک حسیں شعر کی تخلیق کی خاطر شاعر
حسن والوں سے کوئی ناز و ادا مانگے ہے

اس قدر پیار کا انداز ستم میں ہے کہ اب
بے گناہی بھی گناہوں کی سزا مانگے ہے

اپنا ماحول کہ بس جیسے دھوئیں کے بادل
دل وہ آوارہ کہ آزاد فضا مانگے ہے

آج نفرت کے اندھیروں سے پریشاں ہوکر
عشق کے شعلوں سے انسان ضیا مانگے ہے

اس کو مرنے کا نہ جینے کا سلیقہ ہے رفیع
غم سے گھبرا کے جو مرنے کی دعا مانگے ہے

هیچ نظری موجود نیست:

ارسال یک نظر