پنجشنبه، آبان ۰۵، ۱۳۹۰

غزل : سلوکِ دوست سے بیزار کیا ہوا ہوں میں

سلوکِ دوست سے بیزار کیا ہوا ہوں میں
خیال یہ ہے بلندی سے گر گیا ہوں میں

بدلتے وقت نے ہر چیز کو بدل ڈالا
خلوص ویسا کہاں ہے جو سوچتا ہوں میں

مجھے لگا ہے کہ تحلیل ہو گیا ہے وجود
کبھی جب ان کے خیالوں میں کھو گیا ہوں میں

محبتوں کا حسیں دور آنے والا ہے
یہ رخ بھی ان کی عداوت کا دیکھتا ہوں میں

مرے شعور میں ماحول کی ہے بے چَینی
نواۓ وقت ہوں اک درد کی صدا ہوں میں

شکایتوں میں گنوانے سے اس کو کیا حاصِل
زرا سا وقت ملا ہے تو آ گیا ہوں میں

رہِ حیات کے ہر موڑ پر یہ لگتا ہے
فریب کار کی باتوں میں آ گیا ہوں میں

اب اپنی زیست کی تپتی ہوئی سی راہوں پر
کسی درخت کے ساۓ کو ڈھونڈھتا ہوں میں

مجھے یہ طرز تجاہل عجیب لگتا ہے
وہ کہہ رہے ہیں کہیں آپ سے ملا ہوں میں

هیچ نظری موجود نیست:

ارسال یک نظر