سه‌شنبه، مهر ۱۲، ۱۳۹۰

غزل : نہ دوستوں کو سناؤ نہ اجنبی سے کہو

نہ دوستوں کو سناؤ نہ اجنبی سے کہو
تمہیں ہے مجھ سے شکایت تو پھر مجھ ہی سے کہو

یہ بات کیا ہے کہ ہر شخص کو شکایت ہے
کسی کے کام تو آۓ یہ زندگی سے کہو

کبھی تو جرأتِ رِندانہ کام میں لاؤ
یہ کوئی بات ہے ہر بات بے بسی سے کہو

بھرم اسی میں ہے ترکِ تعلقات کی بات
نہ ہم کسی کو بتائیں نہ تم کسی سے کہو

نیا خیال، نیا طرز لازمی ہے مگر
کچھ ایسی باتیں بھی ہیں جن کو سادگی سے کہو

هیچ نظری موجود نیست:

ارسال یک نظر