جمعه، آذر ۱۷، ۱۳۹۱

غزل : نگاہِ شوق تجھے کامیاب کس نے کیا

نگاہِ شوق تجھے کامیاب کس نے کیا
دلِ تباہ کو خانہ خراب کس نے کیا
کتاب غم کی کئی لوگ لکھ رہے تھے مگر
ہمارے نام اسے انتساب کس نے کیا
خموش درد کو اظہار کی زباں دے کر
خود اپنے آپ کے یوں بے نقاب کس نے کیا
امید تھی تو محافظ شکستہ کشتی کی
یہ کیا بتائیں اسے زیرِ آب کس نے کیا
اجارہ داری قلب و نظر کا جھگڑا تھا
دل و نظر میں یہ پید حجاب کس نے کیا
سہارا آپ کی جانب سے کچھ نہ کچھ تو ملا
میں اک دعا تھا مجھے مستجاب کس نے کیا
یہ بحث ختم ہی ہو جاۓ اب تو اچھا ہے
جواب کس کو ملا لاجواب کس نے کیا
وہ شہر جس سے شکایت ہے اب نیا تو نہیں
یہ کس کو ضد تھی اسے انتخاب کس نے کیا
________________________

Rafi Bakhsh Qadri Rafi Badayuni
Ghazal By Rafi Badayuni

سه‌شنبه، آبان ۱۶، ۱۳۹۱

غزل : اس حقیقت کو بتا دیں تو برا لگتا ہے

اس حقیقت کو بتا دیں تو برا لگتا ہے
واقعی کوئی ہے کیا اور وہ کیا لگتا ہے

میں نے پہچان لیا منه کو چھپانا بے سود
یہ کوئی اور نہیں زعمِ وفا لگتا ہے

مصلحت ساز دباتے رہیں دل کی آواز
جو برا ہے وہ بہرحال برا لگتا ہے

ہم بھی اغیار بھی زندہ ہیں اس امید کے ساتھ
رخ بدلتے ہوئے انسان کو کیا لگتا ہے

دل کے رشتوں پہ کوئی حرف نہ آنے پائے
بات سچی ہی سہی مجھ کو برا لگتا ہے

ایک کانٹا جو پکڑ لیتا ہے دامن اکثر
آپ مانیں گے نہیں عہد و وفا لگتا ہے

ڈوب بھی جاتا ہے موجوں سے الجھنے والا
یہ بھی دیکھا ہے کنارے سے بھی جا لگتا ہے

حشر ساماں ہے یہ احساس کی شدت کہ مجھے
دل بھی منجملہٴ ارباب و وفا لگتا ہے

کم سے کم اتنا تو احباب بھی کہتے ہیں رفیعٌ
تیرا اندازِ بیاں سب سے جدا لگتا ہے
_____________________

Urdu Poetry by Rafi Badayuni
Ghazal By Rafi Badayuni
 

جمعه، مهر ۲۱، ۱۳۹۱

غزل : حصار حفظ جاں کوئی نہیں ہے

حصار حفظ جاں کوئی نہیں ہے
ہے کشتی بادباں کوئی نہیں ہے

جہاں تک میں گیا راہ طلب میں
وہاں تک سائباں کوئی نہیں ہے

کچھ ایسی ذہنیت کے لوگ بھی ہیں
جہاں وہ ہیں وہاں کوئی نہیں ہے

محبت میں ہے نفرت کا بھی امکاں
خلوص بیکراں کوئی نہیں ہے

گماں ہو اپنے ویرانے کا جس پر
مکاں ایسا یہاں کوئی نہیں ہے

خود اپنے آپ سے ہم بدگماں ہیں
کسی سے بدگماں کوئی نہیں ہے

ہوئی تصدیق ان سے گفتگو پر
جواب جاہلاں کوئی نہیں ہے

طلب کی آخری منزل ہے شاید
غم سو دوزیاں کوئی نہیں ہے
__________

A Ghazal by Rafi Badayuni

پنجشنبه، مهر ۱۳، ۱۳۹۱

غزل : غزل میں حسن سبھی خاص و عام مانگیں گے

غزل میں حسن سبھی خاص و عام مانگیں گے
کلام والوں سے حسنِ کلام مانگیں گے

ترے کرم کے طلبگار کتنے بھولے ہیں
انھیں یہ ضد ہے کہ ماہِ تمام مانگیں گے

ستم ظریفی حالات دیدنی ہوگی
جو تھک چکے ہیں وہی اور کام مانگیں گے

وہ دل خراش سے لمحے جو تیز گام نہیں
ستم شعار سے طرزِ خرام مانگیں گے

دل و نظر کے دریچوں کو کھول رکھا ہے
کوئی مقام تو عالی مقام مانگیں گے

نظامِ زیست سے اب تک ملے ہیں غم جن کو
شعور زیست بھی وہ اپنے نام مانگیں گے

عبادتوں کو ملا ہے جو احترام وہی
دیار حسن میں سب خاص و عام مانگیں گے

لطیف طنز ہے شاید سمجھ سکیں وہ لوگ
جو بے عمل ہیں انھیں سے پیام مانگیں گے

کسی کی یاد کے لمحے کتاب دل میں رفیعٌ
جہاں بھی آئیں گے نقش دوام مانگیں گے
_____________________

- click on image to enlarge
A Ghazal by Rafi Badayuni
 Background Image : The Tomb of Nawab Ikhlas Khan, the Governor of Badaun, 
popularly known as “Ek Aur Tajmahal”, Badaun, India.

دوشنبه، شهریور ۲۰، ۱۳۹۱

غزل : کسی خیال میں کھونے کی جستجو تو کرو

کسی خیال میں کھونے کی جستجو تو کرو
کسی سے ملنے کی پہلے کچھ آرزو تو کرو

حریف کس لیے خائف ہیں کیوں وہ بدظن ہیں
انھیں بلاؤ کبھی ان سے گفتگو تو کرو

رہیں گے راہ میں سنگِ گراں نہ دیواریں
عمل کے جذبہ کو تھوڑا سا جنگجو تو کرو

حیات دھوپ بھی ہے بادلوں کا سایہ بھی
وہ کوئی حال ہو جینے کی آرزو تو کرو

خزاں کا دور خزاں دیدہ کیوں بناتے ہو
تم ایسے دور میں کچھ ذکر ِ رنگ و بو تو کرو

تمہاری ذات کے بھی تم سے کچھ تقاضے ہیں
ہوا ہے چاک جو دامن اسے رفو تو کرو

کچھ اور وسعتِ قلب و نظر ضروری ہے
کچھ اور غم بھی ابھی دل کے روبرو تو کرو

نہ کام آئے تو بہتر ہے جذبۂ نفرت
جو کام لینا ہے جذبہ کو نیک خو تو کرو
__________________

click on image to enlarge
 
A Ghazal by Rafi Badayuni
 

جمعه، تیر ۰۹، ۱۳۹۱

غزل : وطن پرست نہ جاۓ وطن کو ترسے گا

وطن پرست نہ جاۓ وطن کو ترسے گا
بہار و وادیِ گنگ و جمن کو ترسے گا

خرد کے شہر کی آسودگی میں جو بھی رہا
جنوں کے دور کے دیوانہ پن کو ترسے گا

زباں پہ خوف کے پہرے جہاں بٹھاۓ گئے
خیال جرأت اظہار فن کو ترسے گا

مزاج ِ حسن ستم آشنا رہے ورنہ
زمانہ ظلم کی رسم ِ کہن کو ترسے گا

خوشی جو حد سے بڑھے گی تو یہ بھی دیکھیں گے
کھ خوش نصیب بھی رنج و محن کو ترسے گا

شعور ِ زیست اسیر ِ ہوس نہ ہو ورنہ
مذاق جذبۂ دار و رسن کو ترسے گا

نظام ِ زر میں بھی کچھ قدر تو رہے گی رفیعٌ
مزاج ِ حسن مگر بانکپن کو ترسے گا
______________
 
Rafi Badayuni
Rafi Bakhsh Qadiri Rafi Badayuni
 

جمعه، خرداد ۲۶، ۱۳۹۱

غزل : تنویر رخ کے گرد بھی زنجیر کھینچ لیں

تنویر ِ رخ کے گرد بھی زنجیر کھینچ لیں
چہرہ پہ وہ جو زلفِ گرہ گیر کھینچ لیں

تحریر خون ِ دل سے بھی لکھ دیں تو کیا ہوا
ممکن کہاں کہ درد کی تصویر کھینچ لیں

لوگوں کے قد بلند نظر آئیں گے ہمیں
بس دل سے ایک جذبۂ تحقیر کھینچ لیں

ہم تلخی ِ حیات کو سوچیں تو کیا لکھیں
الفاظ بات بات پہ شمشیر کھینچ لیں

دیکھیں کسی کا عیب یہ اچھا نہیں رفیعٌ
بہتر ہے اپنی آنکھ کا شہتیر کھینچ لیں
_________________
-
Rafi Bakhsh Qadiri Rafi Badayuni

شنبه، خرداد ۱۳، ۱۳۹۱

غزل : کبھی وہ خود سے بھی برہم دکھائی دیتا ہے

کبھی وہ خود سے بھی برہم دکھائی دیتا ہے
کبھی وہ لطف مجسّم دکھائی دیتا ہے

زمانہ ہوتا ہے مجبور رخ بدلنے پر
کسی کا عزم جو محکم دکھائی دیتا ہے

عروس دہر کی رنگینئ ِ جمال میں اب
ترے شباب کا عالم دکھائی دیتا ہے

تلاش ِ دوست مسافت ہے ایک لامحدود
کہ جس قدر بھی چلیں کم دکھائی دیتا ہے
___________________ 

Rafi Bakhsh Qadri Rafi Badayuni
 

دوشنبه، اردیبهشت ۲۵، ۱۳۹۱

غزل : صاف رہنا ہے تو کپڑوں کو بدلتے رہئے

صاف رہنا ہے تو کپڑوں کو بدلتے رہئے
گردآلام کی کیوں جسم پہ ملتے رہئے

راہ دشوار بھی آسان تو ہو سکتی ہے
لیکن اس راہ پہ کچھ دیر تو چلتے رہئے

کیسا انصاف یہاں دادرسی کب ہوگی
اپنا ایمان لئے لاکھ مچلتے رہئے

ان کی قربت بھی تو دوری سے نہیں ہے بہتر
پھر بھی جی چاہے تو اس آگ میں جلتے رہئے

پاس آداب محبت کا تقاضا ہے رفیعٌ
بے خودی کچھ بھی کہے آپ سنبھلتے رہئے
____________


Ghazal by Rafi Bakhsh Qadri Rafi Badayuni
 

شنبه، اردیبهشت ۰۲، ۱۳۹۱

غزل : دشتِ جنوں ہے رنج کا خوگر ہی لے چلیں

دشتِ جنوں ہے رنج کا خوگر ہی لے چلیں
مجبور ہیں کہ ہم دلِ مضطر ہی لے چلیں

بربادیوں کا جشن منانے کے واسطے
دور ِ خزاں سے مانگ کے منظر ہی لے چلیں

معلوم گھر کی بے سروسامانیاں نہ ہوں
کچھ لوگ آگئے ہیں تو دفتر ہی لے چلیں

یادوں کے گھر میں آج بسر کیسے ہوگی رات
ٹوٹی ہوئی امید کے ساغر ہی لے چلیں

خوشبو کسی کے قرب کی آتی رہے رفیعٌ
دل میں خیالِ زلفِ معطر ہی لے چلیں
___________
 
 
Ghazal by Rafi Badayuni
 

دوشنبه، فروردین ۲۸، ۱۳۹۱

غزل : سخت آئینِ وفا ہوں گے تو کیا رہ جاۓ گا

سخت آئینِ وفا ہوں گے تو کیا رہ جاۓ گا
صرف باقی ایک معیار و وفا رہ جاۓ گا

واسطہ تعبیر سے کیا خواب کا رہ جاۓ گا
جب بھی قول و فعل میں کچھ فاصلا رہ جاۓ گا

واسطہ کوئی عمل سے اس کا کیا رہ جاۓ گا
سوچنا عادت ہے جس کی سوچتا رہ جاۓ گا

نقش پا سب وقت کے ہاتھوں سے مٹ سکتے نہیں
راہ میں روشن کہیں تو اک دیا رہ جاۓ گا

اس نظام ِزندگی میں کس کو اتنی فکر ہے
میں اگر آگے بڑھا تو دوسرا رہ جاۓ گا

صرف رشتے توڑ دینا مسئلہ کا حل نہیں
حل نہیں ڈھونڈا تو باقی مسئلہ رہ جاۓ گا

الجھنوں کے کتنے لامحدود رشتے دل سے ہیں
مبتلا جو ہو گیا وہ مبتلا رہ جاۓ گا

دل کی بربادی ضروری اس لئے بھی ہے رفیعٌ
زندگی کی داستاں میں اک خلا رہ جاۓ گا
_______________
 
Ghazal by Rafi Bakhsh Qadri 'Rafi' Badayuni
 

پنجشنبه، فروردین ۱۰، ۱۳۹۱

غزل : دلِ وحشی روایاتِ جنوں کا صرف قائل تھا

دلِ وحشی روایاتِ جنوں کا صرف قائل تھا
نہ دنیا اس سے واقف تھی نہ وہ دنیا کے قابل تھا

ستم کا کوئی خوگر تھا نہ کوئی شخص بسمل تھا
جو ہر چہرے سے ڈرتا تھا وہ خود ہی اپنا قاتل تھا

غموں کے راستے سے شہر ِ الفت تک تو آ جاتے
ضرورت اس کی سب کو تھی مگر احساس مشکل تھا

چمن کو دیکھنے کچھ لوگ آئے تھے وہ کہتے تھے
یہاں کچھ پھول ہنستے تھے یہاں شور ِ عنادل تھا

کرم فرما ہی ہوگا خندہ زن تھا جو تباہی پر
بہت سے لوگ تھے یہ کیا بتائیں کون شامل تھا

ادھورے تبصرے سب تھے تباہی پر مری لیکن
نگاہِ ناز نے جو کچھ کہا وہ سیر ِ حاصل تھا

شکایت وقت سے حالات سے کرتے تو کیوں کرتے
حریفوں میں ہمارے جب ہمارا دل بھی شامل تھا

ہزاروں حادثوں کا داستانوں کا فسانوں کا
کوئی عنواں اگر قائم کیا جاتا تو بس دل تھا
________________

Ghazal by Rafi Badayuni
 

چهارشنبه، اسفند ۲۴، ۱۳۹۰

غزل : وہ کبھی کارگر نہیں ہوتی

وہ کبھی کارگر نہیں ہوتی
بات جو مختصر نہیں ہوتی

لوگ مرعوب ہو تو جاتے ہیں
قدر بے داد گر نہیں ہوتی

نفرتوں کی فصیل حائل ہے
دل کی دل کو خبر نہیں ہوتی

دل کے جلنے کی بات عام ہوئی
روشنی کس کے گھر نہیں ہوتی

تشنہ رہتا مرا مذاقِ سفر
دور منزل اگر نہیں ہوتی

وہ قیامت کی رات ہوتی ہے
جب امیدِ سحر نہیں ہوتی

مسکراہٹ پہ جبر، دھوپ تو ہے
رونقِ بام و در نہیں ہوتی

فرق طرزِ عمل سے ہوتا ہے
ضد کسی بات پر نہیں ہوتی

زخم راحت اثر تو ہو جائے
زحمتِ یک نظر نہیں ہوتی

گھر سجائیں تو کس لئے کہ رفیعٌ
ہر خبر معتبر نہیں ہوتی
_____________

Ghazal by Rafi Badayuni
 

چهارشنبه، اسفند ۱۰، ۱۳۹۰

دو شعر

چہرہ حقیقتوں کا نظر تک نہ آ سکا
اک گرد تھی شکوک کی وہ بھی جمی ہوئی

کچھ ظلم کے خلاف ہوا احتجاج بھی
آوازیں چند آئیں مگر تھیں دبی ہوئی
____________


Rafi Bakhsh Qadri

جمعه، اسفند ۰۵، ۱۳۹۰

غزل : کسی کا غم ہو کسی شخص کو ملال نہیں

کسی کا غم ہو کسی شخص کو ملال نہیں
یہ بات سچ ہے مگر میرے حسب حال نہیں

تلاش ایک مسلسل سفر کو کہتے ھیں
کمال کی کوئی حد ہے تو وہ کمال نہیں

غم حیات سے فرصت کے چند لمحوں میں
خیال یار سے بہتر کوئی خیال نہیں

عجیب طرز ہے ملنے کا کیا کہا جائے
جلال بھی تو نہیں ہے اگر جمال نہیں

وہ کوئی حسن ہو کردار سے بھی نسبت ہے
وہ خوش خیال نہیں ہے جو خوش خصال نہیں

بتاہیاں ہیں مقدر تو پھر شکایت کیا
برا بھی کیا ہے اگر وہ شریک حال نہیں

حیات زخم تو ہے سوچنے کی بات ہے یہ
یہ زخم وہ ہے جسے فکر اندمال نہیں
______________
 
 
Ghazal by Rafi Badayuni
 

شنبه، بهمن ۲۹، ۱۳۹۰

غزل : پھر بھی شکائتیں ہیں کہ بہتر نہیں کہا

پھر بھی شکائتیں ہیں کہ بہتر نہیں کہا
اُن کو کبھی کسی کے برابر نہیں کہا

زور ِبیاں کا کچھ بھی تقاضا ہو اشک کو
قطرہ کہا ہے میں نے سمندر نہیں کہا

بے حسن کچھ ایسے بھی ہیں نظر میں جنھیں رفیعٌ
کمزور لفظ جان کے پتھر نہیں کہا
_____________

Rafi Badayuni

چهارشنبه، بهمن ۱۹، ۱۳۹۰

غزل : زیست سایہ ہی نہیں دھوپ کی تلوار بھی ہے

زیست سایہ ہی نہیں دھوپ کی تلوار بھی ہے
بزم ِ احباب بھی ہے مجمع ِ اغیار بھی ہے

یہ بھی تسلیم کہ وہ غم کا طلبگار بھی ہے
دل اگر دل ہے تو پھر کوئی دل آزار بھی ہے

رسن و دار سجانے کو سجاۓ رکھئے
یہ بھی دیکھا کہ کوئی صاحبِ کردار بھی ہے

بو الہوس کو بھی محبت کا ہے دعویٰ لیکن
اس محبت میں کہیں جذبۂ ایثار بھی ہے

کوچۂ یار کے مشتاق نے یہ بھی سوچا
رسن و دار کا پہلے وہ طلبگار بھی ہے
______________

Rafi Badayuni