جمعه، خرداد ۲۶، ۱۳۹۱

غزل : تنویر رخ کے گرد بھی زنجیر کھینچ لیں

تنویر ِ رخ کے گرد بھی زنجیر کھینچ لیں
چہرہ پہ وہ جو زلفِ گرہ گیر کھینچ لیں

تحریر خون ِ دل سے بھی لکھ دیں تو کیا ہوا
ممکن کہاں کہ درد کی تصویر کھینچ لیں

لوگوں کے قد بلند نظر آئیں گے ہمیں
بس دل سے ایک جذبۂ تحقیر کھینچ لیں

ہم تلخی ِ حیات کو سوچیں تو کیا لکھیں
الفاظ بات بات پہ شمشیر کھینچ لیں

دیکھیں کسی کا عیب یہ اچھا نہیں رفیعٌ
بہتر ہے اپنی آنکھ کا شہتیر کھینچ لیں
_________________
-
Rafi Bakhsh Qadiri Rafi Badayuni

هیچ نظری موجود نیست:

ارسال یک نظر