شنبه، اردیبهشت ۰۲، ۱۳۹۱

غزل : دشتِ جنوں ہے رنج کا خوگر ہی لے چلیں

دشتِ جنوں ہے رنج کا خوگر ہی لے چلیں
مجبور ہیں کہ ہم دلِ مضطر ہی لے چلیں

بربادیوں کا جشن منانے کے واسطے
دور ِ خزاں سے مانگ کے منظر ہی لے چلیں

معلوم گھر کی بے سروسامانیاں نہ ہوں
کچھ لوگ آگئے ہیں تو دفتر ہی لے چلیں

یادوں کے گھر میں آج بسر کیسے ہوگی رات
ٹوٹی ہوئی امید کے ساغر ہی لے چلیں

خوشبو کسی کے قرب کی آتی رہے رفیعٌ
دل میں خیالِ زلفِ معطر ہی لے چلیں
___________
 
 
Ghazal by Rafi Badayuni
 

هیچ نظری موجود نیست:

ارسال یک نظر