دوشنبه، اردیبهشت ۲۵، ۱۳۹۱

غزل : صاف رہنا ہے تو کپڑوں کو بدلتے رہئے

صاف رہنا ہے تو کپڑوں کو بدلتے رہئے
گردآلام کی کیوں جسم پہ ملتے رہئے

راہ دشوار بھی آسان تو ہو سکتی ہے
لیکن اس راہ پہ کچھ دیر تو چلتے رہئے

کیسا انصاف یہاں دادرسی کب ہوگی
اپنا ایمان لئے لاکھ مچلتے رہئے

ان کی قربت بھی تو دوری سے نہیں ہے بہتر
پھر بھی جی چاہے تو اس آگ میں جلتے رہئے

پاس آداب محبت کا تقاضا ہے رفیعٌ
بے خودی کچھ بھی کہے آپ سنبھلتے رہئے
____________


Ghazal by Rafi Bakhsh Qadri Rafi Badayuni
 

هیچ نظری موجود نیست:

ارسال یک نظر