سخت آئینِ
وفا ہوں گے تو کیا رہ جاۓ گا
صرف باقی
ایک معیار و وفا رہ جاۓ گا
واسطہ
تعبیر سے کیا خواب کا رہ جاۓ گا
جب بھی قول
و فعل میں کچھ فاصلا رہ جاۓ گا
واسطہ کوئی
عمل سے اس کا کیا رہ جاۓ گا
سوچنا عادت
ہے جس کی سوچتا رہ جاۓ گا
نقش پا سب
وقت کے ہاتھوں سے مٹ سکتے نہیں
راہ میں
روشن کہیں تو اک دیا رہ جاۓ گا
اس نظام ِزندگی
میں کس کو اتنی فکر ہے
میں اگر
آگے بڑھا تو دوسرا رہ جاۓ گا
صرف رشتے
توڑ دینا مسئلہ کا حل نہیں
حل نہیں
ڈھونڈا تو باقی مسئلہ رہ جاۓ گا
الجھنوں کے
کتنے لامحدود رشتے دل سے ہیں
مبتلا جو
ہو گیا وہ مبتلا رہ جاۓ گا
دل کی
بربادی ضروری اس لئے بھی ہے رفیعٌ
زندگی کی داستاں میں اک خلا رہ جاۓ گا
_______________
![]() |
| Ghazal by Rafi Bakhsh Qadri 'Rafi' Badayuni |

هیچ نظری موجود نیست:
ارسال یک نظر