دوشنبه، فروردین ۲۸، ۱۳۹۱

غزل : سخت آئینِ وفا ہوں گے تو کیا رہ جاۓ گا

سخت آئینِ وفا ہوں گے تو کیا رہ جاۓ گا
صرف باقی ایک معیار و وفا رہ جاۓ گا

واسطہ تعبیر سے کیا خواب کا رہ جاۓ گا
جب بھی قول و فعل میں کچھ فاصلا رہ جاۓ گا

واسطہ کوئی عمل سے اس کا کیا رہ جاۓ گا
سوچنا عادت ہے جس کی سوچتا رہ جاۓ گا

نقش پا سب وقت کے ہاتھوں سے مٹ سکتے نہیں
راہ میں روشن کہیں تو اک دیا رہ جاۓ گا

اس نظام ِزندگی میں کس کو اتنی فکر ہے
میں اگر آگے بڑھا تو دوسرا رہ جاۓ گا

صرف رشتے توڑ دینا مسئلہ کا حل نہیں
حل نہیں ڈھونڈا تو باقی مسئلہ رہ جاۓ گا

الجھنوں کے کتنے لامحدود رشتے دل سے ہیں
مبتلا جو ہو گیا وہ مبتلا رہ جاۓ گا

دل کی بربادی ضروری اس لئے بھی ہے رفیعٌ
زندگی کی داستاں میں اک خلا رہ جاۓ گا
_______________
 
Ghazal by Rafi Bakhsh Qadri 'Rafi' Badayuni
 

هیچ نظری موجود نیست:

ارسال یک نظر