چهارشنبه، اسفند ۲۴، ۱۳۹۰

غزل : وہ کبھی کارگر نہیں ہوتی

وہ کبھی کارگر نہیں ہوتی
بات جو مختصر نہیں ہوتی

لوگ مرعوب ہو تو جاتے ہیں
قدر بے داد گر نہیں ہوتی

نفرتوں کی فصیل حائل ہے
دل کی دل کو خبر نہیں ہوتی

دل کے جلنے کی بات عام ہوئی
روشنی کس کے گھر نہیں ہوتی

تشنہ رہتا مرا مذاقِ سفر
دور منزل اگر نہیں ہوتی

وہ قیامت کی رات ہوتی ہے
جب امیدِ سحر نہیں ہوتی

مسکراہٹ پہ جبر، دھوپ تو ہے
رونقِ بام و در نہیں ہوتی

فرق طرزِ عمل سے ہوتا ہے
ضد کسی بات پر نہیں ہوتی

زخم راحت اثر تو ہو جائے
زحمتِ یک نظر نہیں ہوتی

گھر سجائیں تو کس لئے کہ رفیعٌ
ہر خبر معتبر نہیں ہوتی
_____________

Ghazal by Rafi Badayuni
 

هیچ نظری موجود نیست:

ارسال یک نظر