پنجشنبه، آذر ۱۳، ۱۳۹۳

غزل : ملے ہے جب بھی وہ تنہا لگے ہے

غزل

ملے ہے جب بھی وہ تنہا لگے ہے
خود اپنی ذات میں الجھا لگے ہے

خوشی کیا غم بھی کب اپنا لگے ہے
دل اچھا ہو تو سب اچھا لگے ہے

اکیلا کر دیا ہے سب نے مجھ کو
تصور بھی گریزاں سا لگے ہے

ادھر بھی کوئی مجبوری تو ہوگی
کسے دل توڑنا اچھا لگے ہے

مجھے دور ترقی میں بھی انساں
شعور و شعر کا پیاسا لگے ہے

زمانے کی ہوا پر کیوں ہو نازاں
ہوا کو رخ بدلتے کیا لگے ہے

خدا شاہد مری حق بیں نظر کو
جو اچھا ہے وہی اچھا لگے ہے

کبھی ہے زندگی غم سے پریشاں
کبھی غم زندگی جیسا لگے ہے

رفیع بخش قادری رفیع بدایونی
_______________________________

Rafi Badayuni Poetry
Urdu Ghazal by Rafi Bakhsh Qadiri Rafi Badayuni





Find him on Facebook.

دوشنبه، تیر ۲۳، ۱۳۹۳

غزل : اِک خلش دل کے آس پاس رہے

غزل

اِک خلش دل کے آس پاس رہے
زندگی کی کوئی اَساس رہے

موتیوں کا نصیب ہے کچھ اور
لاکھ پانی پہ کوئی گھاس رہے

اس بہاروں کی رت کو کیا کہئے
کچھ شجر اب بھی بے لباس رہے

ایسا تنہائیوں کا عالم تھا
دل سے کہنا تھا میرے پاس رہے

دوسروں کی روش سے کیا مطلب
تیرا اخلاق تیرے پاس رہے

بدگمانی ہو یا ہو خوش فہمی
سب کی بنیاد کچھ قیاس رہے

چند فرصت طلب کتابوں کے
کتنے مقبول اقتباس رہے

رفیع بخش قادری رفیع بدایونی
__________________________

Rafi Badayuni Poetry
Urdu Ghazal by Rafi Bakhsh Qadiri Rafi Badayuni
Find him on Facebook.

پنجشنبه، تیر ۰۵، ۱۳۹۳

غزل : جمال یار جو اپنی خودی کی قید میں ہے

غزل

جمال یار جو اپنی خودی کی قید میں ہے
وہی جمال مری شاعری کی قید میں ہے

خرد کے شہر کے لوگوں کو کیسے سمجھائیں
سکونِ زیست تو آوارگی کی قید میں ہے

وہ حق پرست نہیں ہے کچھ اور اس کو کہو
وہ حق پرست جو بے چارگی کی قید میں ہے

کہاں سے آئے توازن کہ زندگی یارو!
اسیر ِغم ہے کبھی یہ خوشی کی قید میں ہے

یہ اُن کے نام کی برکت نہیں تو کیا ہے رفیعٌ
اثر دعا میں کبھی بندگی کی قید میں ہے

رفیع بدایونی
_____________________

Rafi Badayuni Urdu Poetry
A Ghazal by Rafi Bakhsh Qadiri Rafi Badayuni

Find him on Facebook.

دوشنبه، خرداد ۱۲، ۱۳۹۳

غزل : حلقۂ گیسوۓ خم دار سے آگے نہ بڑھے

غزل

حلقۂ گیسوۓ خم دار سے آگے نہ بڑھے
ہم کبھی ذکرِ غمِ یار سے آگے نہ بڑھے

وہ بھی تھے تذکرۂ دار سے آگے نہ بڑھے
اُن کا معیار تھا معیار سے آگے نہ بڑھے

ٹھوکریں جہدِ مسلسل کی بڑھاتی ہیں انھیں
میرے حالات کبھی پیار سے آگے نہ بڑھے

ہم سے ٹکراتے رہے آکے جہاں کے غم تھے
بادل اٹھے بھی تو کہسار سے آگے نہ بڑھے

قید آنکھوں میں وہی ایک ہے منظر اب تک
ہم کبھی جلوہ گہۂ یار سے آگے نہ بڑھے

اک اچٹتی سی نظر دل کے لئے کافی تھی
وار مخصوص تھا، اک وار سے آگے نہ بڑھے

گھر سے باہر کبھی نکلے نہ تماشہ دیکھا
لوگ جب ذات کی دیوار سے آگے نہ بڑھے

رفیع بخش قادری رفیع بدایونی

________________________________

Rafi Badayuni Urdu Poetry
A Ghazal by Rafi Badayuni
Find him of Facebook.

شنبه، اردیبهشت ۲۰، ۱۳۹۳

غزل : میرے حالات کو خوشی کی تلاش

غزل

میرے حالات کو خوشی کی تلاش
ریگ زاروں کو ہے نمی کی تلاش

ہے وہ بے سود ہو کسی کی تلاش
اس زمانے میں آدمی کی تلاش

خود کو ہم ڈھونڈنے کو نکلے ہیں
اب نہیں ہے ہمیں کسی کی تلاش

زندگی سے وہ خود بھی خوش تو نہیں
جس کا ملنا ہے زندگی کی تلاش

ایسا بدلا مزاق حسن کہ اب
بانکپن کو ہے سادگی کی تلاش

رنج و غم مجھ کو ڈھونڈتے ہی رہے
مفلسوں کو رہی غنی کی تلاش

شاہراہوں پہ میں اکیلا ہوں
ذہن میں ہے کسی گلی کی تلاش

زیست میں سایۂ سکوں کا خیال
دھوپ میں جیسے چاندنی کی تلاش


رفیع بخش قادری رفیع بدایونی
__________________________ 

Rafi Badayuni Poetry
A Ghazal by Rafi Bakhsh Qadiri Rafi Badayuni
 
Find him of Facebook.

سه‌شنبه، فروردین ۱۹، ۱۳۹۳

غزل : وہم و گماں نہ آئے خبردار دیکھ کر

غزل

 وہم و گماں نہ آئے خبردار دیکھ کر
جذبات سے یقین کا اظہار دیکھ کر

گھر کا سکون زیست کا سایہ نظر میں تھا
ہم رک گئے تھے سایۂ دیوار دیکھ کر

دل کے معاملات تھے اٹھتے رہے قدم
ہر بار سوچتے رہے اس بار دیکھ کر

باقی سفر ہے دھوپ کی وادی ہے سامنے
کیوں خوش ہوئے ہو سایۂ اشجار دیکھ کر

ہر شخص اک خلوص کا پیکر ملا مجھے
ٹوٹی ہوئی مکان کی دیوار دیکھ کر

رفیع بخش قادری رفیع بدایونی

 ____________________

Rafi Badayuni Poetry
A Ghazal by Rafi Bakhsh Qadiri Rafi Badayuni

 

شنبه، اسفند ۱۰، ۱۳۹۲

غزل : ہوا عتاب مگر دل نواز بھی تو نہ تھا

غزل

ہوا عتاب مگر دل نواز بھی تو نہ تھا
جواز ڈھونڈتے کیسے وہ راز بھی تو نہ تھا

یہ کیا کہ دھوپ میں جلنے کی تاب لا نہ سکے
سفر حیات کا اتنا دراز بھی تو نہ تھا

چمن کے حال پہ آنکھیں نہ بھیگ پائیں تو کیا
ہوا کے لہجے میں سوز و گداز بھی تو نہ تھا

سبب بتایا تو الزام لوگ کہنے لگے
وہ درد کچھ بھی سہی خانہ ساز بھی تو نہ تھا

کھلی کتاب تو چہرہ نہ تھا رفیع مگر
چھپا رہے کسی خط میں وہ راز بھی تو نہ تھا



رفیع بخش قادری رفیع بدایونی
______________________________

Rafi Badayuni Poetry
A Ghazal by Rafi Bakhsh Qadiri Rafi Badayuni

پنجشنبه، بهمن ۱۰، ۱۳۹۲

غزل : کارواں والوں کو میرِ کارواں لے جائے گا

غزل

کارواں والوں کو میرِ کارواں لے جائے گا
جانبِ منزل انھیں عزمِ جواں لے جائے گا

فصلِ گل دیدہ وروں کو ڈھونڈھنے نکلے گی جب
ہو کے خود مجبور مجھ کو باغباں لے جائے گا

گھر سے باہر دل کے کہنے سے چلا آیا تو ہوں
اب یہ کیا معلوم وہ مجھ کو کہاں لے جائے گا

زینتِ داماں بنیں گے وہ بھی دن آنے کو ہے
میری آنکھوں سے کوئی اشکِ رواں لے جائے گا

حق کے شیدائی سے نفرت چھیڑ یوں کرتی رہی
ایسے جذبے کو تو کس کے درمیاں لے جائے گا

ہے بکھرنا بھی مجھے، تقسیم ہونا بھی مجھے
کوئی اندازِ بیاں کوئی زباں لے جائے گا

وقت اک دریا ہے جس میں تلخیوں کا کیا سوال
اس خس و خاشاک کو آبِ رواں لے جائے گا

دورِ بربادی گزرنے پر بھی یاد آئیں گے ہم
کیا وہ اپنے ساتھ یادِ رفتگاں لے جائے گا

کچھ نہ کہنا ہی شکایت سے ہے بہتر تو رفیع
عشق کی بازی تو کوئی بے زباں لے جائے گا

رفیع بخش قادری رفیع بدایونی

___________________________

 

Rafi Badayuni Poetry
A Ghazal by Rafi Bakhsh Qadri Rafi Badayuni