پنجشنبه، بهمن ۱۰، ۱۳۹۲

غزل : کارواں والوں کو میرِ کارواں لے جائے گا

غزل

کارواں والوں کو میرِ کارواں لے جائے گا
جانبِ منزل انھیں عزمِ جواں لے جائے گا

فصلِ گل دیدہ وروں کو ڈھونڈھنے نکلے گی جب
ہو کے خود مجبور مجھ کو باغباں لے جائے گا

گھر سے باہر دل کے کہنے سے چلا آیا تو ہوں
اب یہ کیا معلوم وہ مجھ کو کہاں لے جائے گا

زینتِ داماں بنیں گے وہ بھی دن آنے کو ہے
میری آنکھوں سے کوئی اشکِ رواں لے جائے گا

حق کے شیدائی سے نفرت چھیڑ یوں کرتی رہی
ایسے جذبے کو تو کس کے درمیاں لے جائے گا

ہے بکھرنا بھی مجھے، تقسیم ہونا بھی مجھے
کوئی اندازِ بیاں کوئی زباں لے جائے گا

وقت اک دریا ہے جس میں تلخیوں کا کیا سوال
اس خس و خاشاک کو آبِ رواں لے جائے گا

دورِ بربادی گزرنے پر بھی یاد آئیں گے ہم
کیا وہ اپنے ساتھ یادِ رفتگاں لے جائے گا

کچھ نہ کہنا ہی شکایت سے ہے بہتر تو رفیع
عشق کی بازی تو کوئی بے زباں لے جائے گا

رفیع بخش قادری رفیع بدایونی

___________________________

 

Rafi Badayuni Poetry
A Ghazal by Rafi Bakhsh Qadri Rafi Badayuni
 

هیچ نظری موجود نیست:

ارسال یک نظر