چهارشنبه، آذر ۲۷، ۱۳۹۲

غزل : جو غم نصیب ہیں کیوں وہ خوشی سے ملتے ہیں

جو غم نصیب ہیں کیوں وہ خوشی سے ملتے ہیں
اندھیرے دیکھئے کب روشنی سے ملتے ہیں

جنون ِشوق کو صحرانورد پایا ہے
کچھ اس کے رشتے بھی آوارگی سے ملتے ہیں

خلوص بھی کوئی بنجر زمین ہے شاید
ثبوت اس کے مری زندگی سے ملتے ہیں

وہ بات کہہ دی جسے عقل و دل قبول کریں
یہ دشمنی ہے تو ہم دشمنی سے ملتے ہیں

مقام ہوتے ہیں دل کے قریب بھی لیکن
غرور سے نہیں وہ عاجزی سے ملتے ہیں

پسند خاطر احباب ہوں نہ ہوں لیکن
وہ لوگ بھی ہیں جو سادہ دِلی سے ملتے ہیں

امیر لوگوں کو عیش و نشاط کے ساماں
غریب لوگوں کی فاقہ کشی سے ملتے ہیں

خود اپنے آپ سے اکثر ملے ہیں یوں بھی رفیعؔ
کہ جیسے لوگ کسی اجنبی سے ملتے ہیں

رفیع بخش قادری رفیع بدایونی
___________________________

by Rafi Bakhsh Qadri Rafi Badayuni

هیچ نظری موجود نیست:

ارسال یک نظر