دوشنبه، مهر ۲۹، ۱۳۹۲

غزل : وقار ِغم نگۂ فتنہ گر میں کیا ہوگا

وقار ِغم نگۂ فتنہ گر میں کیا ہوگا
وہ کم نظر ہے تو اس کی نظر میں کیا ہوگا

جو شب گزیدہ ہیں وہ خوب جانتے ہوں گے
سحر کے وعدہٴ راحت اثر میں کیا ہوگا

یہ غم کی راتوں کا دعویٰ بھی کچھ غلط تو نہیں
خوشی کی ایک شب ِمختصر میں کیا ہوگا

ھم اپنے دور کی قسمت سے پُر امید نہیں
سحر قریب ہے لیکن سحر میں کیا ہوگا

مزاج ِحسن نہ بدلے جو موسموں کی طرح
دیار ِحسن کے شام و سحر میں کیا ہوگا

ملا ہے نالۂ شب سے تو صرف کرب مجھے
یہ سوچتا ہوں کہ آہِ سحر میں کیا ہوگا

دعائیں مانگنے والوں نے کب یہ سوچا ہے
اثر کے وعدۂ نا معتبر میں کیا ہوگا

سوائے گردِ سفر اور کیا بتائیں رفیع
سفر نصیب کے رختِ سفر میں کیا ہوگا


رفیع بخش قادری | رفیع بدایونی
_____________________________________

Urdu Poetry by Rafi Bakhsh Qadri Rafi Badayuni
by Rafi Bakhsh Qadri Rafi Badayuni
Urdu Poetry by Rafi Bakhsh Qadri Rafi Badayuni

هیچ نظری موجود نیست:

ارسال یک نظر