چهارشنبه، بهمن ۰۵، ۱۳۹۰

غزل : جب اپنی ذات کو سمجھا تو کوئی ڈر نہ رہا

جب اپنی ذات کو سمجھا تو کوئی ڈر نہ رہا
جہاں میں کوئی پر ستار ِ اہل ِ زر نا رہا

سڑک کے کانٹے کہ جن پر لہو کے چھینٹے ہیں
بتا رہے ہیں کہ اک شخص رات گھر نہ رہا

بدلتی قدرتوں میں خونِ جگر سے نامۂ شوق
یہ خاص طرز ِ نگارش بھی معتبر نہ رہا

نگاہِ ناز ہے مایوس کس طرف جائے
وہ اہل ِ دل نہ رہے حلقۂ اثر نہ رہا

خوشی کے لمحوں سے کیفِ دوام کیا ملتا
وہ رقص ِ جام بھی دیکھا جو رات بھر نہ رہا

لچک تھی جن میں وہ پودے تو اب بھی باقی ہیں
ہوا کی زد پہ جو آیا وہی شجر نہ رہا

زرا سی دیر میں منزل کو پا لیا اس نے
وہ جس کے سر پہ کہیں سایۂ شجر نہ رہا

خِرد کا دل سے تعلق نہ کوئی رشتہ ہے
وہ ہم خیال بھی کب تھا جو ہم سفر نہ رہا
___________
Rafi Badayuni

شنبه، بهمن ۰۱، ۱۳۹۰

تین اشعار : وہ غم کسی کا ہو کچھ واسطا رہا ہم سے

تین اشعار

وہ غم کسی کا ہو کچھ واسطا رہا ہم سے
تمام لوگوں کو پھر بھی گِلا رہا ہم سے

ہوا کے جھونکوں سے شمع خلوص بجھ نہ سکی
کسی کی رنجش ِ بے جا کو کیا مِلا ہم سے

روایتوں کا یہ زنداں یہ تیری مجبوری
تری نگاہ نے سب کچھ تو کہہ دیا ہم سے
_______________

Rafi Badayuni

سه‌شنبه، دی ۲۷، ۱۳۹۰

غزل : گو تذکرۂ عظمتِ کردار بہت ہے

گو تذکرۂ عظمتِ کردار بہت ہے
مل جاۓ اگر ایک بھی غمخوار بہت ہے

نفرت کی ہر اک سمت سے یلغار بہت ہے
آؤ نہ ابھی مجمع ِ اغیار بہت ہے

لڑنے کی اگر ظلم سے طاقت نہیں یارو
اک جذبۂ نفرت ہی کا اظہار بہت ہے

انجام سے واقف ہیں مگر دل سے کہیں کیا
بیمار سے کب کہتے ہیں بیمار بہت ہے

دستور ِ زمانہ ہی سہی دیکھ تو لیجے
کہتے ہیں کئی روز سے بیمار بہت ہے
__________________

Rafi Badayuni

شنبه، دی ۲۴، ۱۳۹۰

غزل : کب تک کسی خلوص کا یوں امتحاں چلے

کب تک کسی خلوص کا یوں امتحاں چلے
کب تک فریب شوخی ِ لفظ و بیاں چلے

پہنچا کے ہم کو کوۓ ملامت میں کیا کہیں
بے کیفی ِ حیات کے منظر کہاں چلے

کچھ فاصلہ رہے تو چلے کاروانِ شوق
سایہ فگن ہو زلف تو کیوں کارواں چلے

عالم یہ ہے کہ بار گراں ہے وجود تک
ارماں یہ ہے کہ ساتھ ہمارے جہاں چلے

شائستۂ جنوں تھا وہ ماحول بھی مگر
ہم بھی دیار ِ شوق میں بچ کر کہاں چلے

ہو آبلوں کو پاؤں کے کانٹوں کی جب تلاش
کیوں فرش ِ گل پہ پھر مری عمر ِ رواں چلے

شہر ِ و خرد کو محبس و زنداں نہ کیوں کہیں
جب ہر قدم سفر میں کوئی پاسباں چلے
____________

Rafi Badayuni

چهارشنبه، دی ۲۱، ۱۳۹۰

غزل : جب اُن کے کوچۂ جنّت نشاں سے آئے ہیں

جب اُن کے کوچۂ جنّت نشاں سے آئے ہیں
غموں کو فکر ہوئی ہے کہاں سے آئے ہیں

اندھیری رات کو کہنا تھا دن، تو کہہ دیتے
مصیبتوں میں خود اپنے بیاں سے آئے ہیں

جو داستان ِجہاں میں حسین ہیں عنواں
سب ایسے نام مری داستاں سے آئے ہیں

انھیں شکایتِ بے مہریِ زمانہ کیا
خراب حال جو اپنے مکاں سے آئے ہیں

یہ سانحات جو دنیاۓ دل کا ہیں حصّہ
یہ سانحات بھی نظمِ جہاں سے آئے ہیں

سنیں گے ریت کی موجوں کے رخ کی باتیں بھی
زرا ٹھہر کہ ابھی گلستاں سے آئے ہیں

بنالے ذات کا محبس تو یہ بھی اچھا ہے
کہ تنگ ہم بھی دلِ بدگماں سے آئے ہیں

اب ان کو دل میں جگہ دے کہ کوئی ٹھکرا دے
پیام امن تو ہندوستاں سے آئے ہیں
_______________

پنجشنبه، دی ۱۵، ۱۳۹۰

غم زدہ ہو کے جو حالات سے شام آۓ گی

غم زدہ ہو کے جو حالات سے شام آۓ گی
میرے کام آئی نہ وہ آپ کے کام آۓ گی

کیا خبر تھی کہ ٹھہر جاۓ گا چلتا سورج
صبح آئے گی نہ مرے پاس شام آئے گی

اپنے محبوب سے امیدِ کرم کرتے ہیں
جس کی کوشش ہے وہ اس شخص کے کام آۓ گی
__________________

Rafi Badayuni

دوشنبه، دی ۱۲، ۱۳۹۰

غزل : جنوں نواز نگاہوں میں حوصلہ نہ رہا

جنوں نواز نگاہوں میں حوصلہ نہ رہا
خِرد کے دور میں کچھ دل سے واسطہ نہ رہا

ہمارے حق میں زمانے کا فیصلہ نہ رہا
زبان و دل میں اگر کوئی فاصلہ نہ رہا

کھڑے تھے سہمے ہوئے میکدے کے پاس وہی
کہ جن میں زیست سے لڑنے کا حوصلہ نہ رہا

لٹا کے دولتِ صبر و قرار آئے ہیں
خلش ہو جس کی کوئی ایسا حادثہ نہ رہا

حقیقتوں نے طلسمِ فریب توڑ دیا
مگر حسین خیالوں کا سلسلہ نہ رہا

سیاہ چہروں پہ نازاں ہیں لوگ کیوں شاید
کسی کے سامنے اب کوئی آئینہ نہ رہا

بڑھوں تو شہر ِملامت رکوں تو دشتِ جنوں
کدھر کو جاؤں کہ اب کوئی راستہ نہ رہا
_____________