چهارشنبه، آذر ۲۷، ۱۳۹۲

غزل : جو غم نصیب ہیں کیوں وہ خوشی سے ملتے ہیں

جو غم نصیب ہیں کیوں وہ خوشی سے ملتے ہیں
اندھیرے دیکھئے کب روشنی سے ملتے ہیں

جنون ِشوق کو صحرانورد پایا ہے
کچھ اس کے رشتے بھی آوارگی سے ملتے ہیں

خلوص بھی کوئی بنجر زمین ہے شاید
ثبوت اس کے مری زندگی سے ملتے ہیں

وہ بات کہہ دی جسے عقل و دل قبول کریں
یہ دشمنی ہے تو ہم دشمنی سے ملتے ہیں

مقام ہوتے ہیں دل کے قریب بھی لیکن
غرور سے نہیں وہ عاجزی سے ملتے ہیں

پسند خاطر احباب ہوں نہ ہوں لیکن
وہ لوگ بھی ہیں جو سادہ دِلی سے ملتے ہیں

امیر لوگوں کو عیش و نشاط کے ساماں
غریب لوگوں کی فاقہ کشی سے ملتے ہیں

خود اپنے آپ سے اکثر ملے ہیں یوں بھی رفیعؔ
کہ جیسے لوگ کسی اجنبی سے ملتے ہیں

رفیع بخش قادری رفیع بدایونی
___________________________

by Rafi Bakhsh Qadri Rafi Badayuni

دوشنبه، مهر ۲۹، ۱۳۹۲

غزل : وقار ِغم نگۂ فتنہ گر میں کیا ہوگا

وقار ِغم نگۂ فتنہ گر میں کیا ہوگا
وہ کم نظر ہے تو اس کی نظر میں کیا ہوگا

جو شب گزیدہ ہیں وہ خوب جانتے ہوں گے
سحر کے وعدہٴ راحت اثر میں کیا ہوگا

یہ غم کی راتوں کا دعویٰ بھی کچھ غلط تو نہیں
خوشی کی ایک شب ِمختصر میں کیا ہوگا

ھم اپنے دور کی قسمت سے پُر امید نہیں
سحر قریب ہے لیکن سحر میں کیا ہوگا

مزاج ِحسن نہ بدلے جو موسموں کی طرح
دیار ِحسن کے شام و سحر میں کیا ہوگا

ملا ہے نالۂ شب سے تو صرف کرب مجھے
یہ سوچتا ہوں کہ آہِ سحر میں کیا ہوگا

دعائیں مانگنے والوں نے کب یہ سوچا ہے
اثر کے وعدۂ نا معتبر میں کیا ہوگا

سوائے گردِ سفر اور کیا بتائیں رفیع
سفر نصیب کے رختِ سفر میں کیا ہوگا


رفیع بخش قادری | رفیع بدایونی
_____________________________________

Urdu Poetry by Rafi Bakhsh Qadri Rafi Badayuni
by Rafi Bakhsh Qadri Rafi Badayuni
Urdu Poetry by Rafi Bakhsh Qadri Rafi Badayuni

شنبه، تیر ۰۱، ۱۳۹۲

غزل : ہمارے حال پہ اظہار ِ غم بھی ہوتا ہے

ہمارے حال پہ اظہار ِ غم بھی ہوتا ہے
ستم کے بعد سنا ہے کرم بھی ہوتا ہے

ابھر بھی آتی ہیں چہروں پہ چند تحریریں
فسانۂ غم ِ ہستی رقم بھی ہوتا ہے

صنم کدہ نہیں مانا وہ سنگِ در ہی سہی
کسی جگہ تو سر ِ شوق خم بھی ہوتا ہے


 رفیع بخش قادری رفیع بدایونی
____________________

by Rafi Bakhsh Qadri Rafi Badayuni
Urdu Poetry by Rafi Bakhsh Qadri Rafi Badayuni

شنبه، فروردین ۱۷، ۱۳۹۲

غزل : ساحل یہ کہہ رہے ہیں کہ بچ کر رہے ہیں ہم

ساحل یہ کہہ رہے ہیں کہ بچ کر رہے ہیں ہم
موجیں یہ کہہ رہی ہیں سمندر رہے ہیں ہم

اوڑھے ہوئے فریب کی چادر رہے ہیں ہم
دیکھا جو آج خود کو تو ششدر رہے ہیں ہم

اپنی انا نے وقت سے ملنے نہیں دیا
یعنی خود اپنی راہ میں پتھر رہے ہیں ہم

معلوم یہ ہوا کہ شکایت سبھی کو ہے
مدت کے بعد آج جو گھر پر رہے ہیں ہم

ان کے بدن کو چھو کے جو آتی رہی ہوا
خوشبو سے اس بدن کی معطر رہے ہیں ہم

منزل شناس کون ہے یہ کون طے کرے
ہر شخص کہہ رہا ہے کہ رہبر رہے ہیں ہم

دامن بھرا ہے زخم کے پھولوں سے، کیا ہوا
عزت مآب بن کے سخنور رہے ہیں ہم


رفیع بخش قادری رفیع بدایونی
________

Rafi Badayuni Poetry
Ghazal by Rafi Bakhsh Qadri Rafi Badayuni

A Ghazal by Rafi Bakhsh Qadri Rafi Badayuni

جمعه، اسفند ۲۵، ۱۳۹۱

غزل : راہ زن کہئے جنھیں وہ راہبر ہوتے تو ہیں

Rafi Badayuni Poetry
Ek Sher | Rafi Bakhsh Qadri Rafi Badayuni
 
راہ زن کہئے جنھیں وہ راہبر ہوتے تو ہیں
شہر میں کم ہی سہی کچھ فتنہ گر ہوتے تو ہیں
پر سکوں بھی ہے کبھی یہ ہے تلاطم خیز بھی
زندگی دریا ہے دریا میں بھنور ہوتے تو ہیں
داستانوں کی طرح بھی غم بیاں کرتے ہیں لوگ
ایسے افسانے بھی ہیں جو مختصر ہوتے تو ہیں
درد کے بادل فضاؤں میں بکھر جاتے ہیں جب
چند آنسو بھی ہوا کے دوش پر ہوتے تو ہیں
ان سے اک نسبت کا کچھ احساس ہوتا ہے ضرور
رنج و غم اکثر ہمارے چارہ گر ہوتے تو ہیں
اجنبی اپنے زمانے میں جنھیں کہتے ہیں لوگ
آنے والے دور کے پیغام بر ہوتے تو ہیں
جن پہ رہتا ہے ہمیشہ خانہ ویرانی کو ناز
شہر میں تھوڑے سہی کچھ ایسے گھر ہوتے تو ہیں
اک خیالی بات ہے جس کا نہیں کوئی وجود
تبصرے پھر بھی وفا کے نام پر ہوتے تو ہیں
راہ الفت میں کہیں سایہ نہیں ملتا رفیع
ویسے ہونے کو یہاں بھی کچھ شجر ہوتے تو ہیں
_________________________

Rafi Badayuni Poetry
A Ghazal by Rafi Bakhsh Qadri Rafi Badayuni

پنجشنبه، دی ۲۸، ۱۳۹۱

غزل : ٹھوکریں کھا کر ھم آخر آگہی تک آ گئے

ٹھوکریں کھا کر ھم آخر آگہی تک آ گئے
کھوکھلی باتوں سے فرضِ منصبی تک آ گئے

کیوں نہ ہو تشویش مجھ کو دیکھنے کے واسطے
جو کبھی آئے نہ تھے وہ آدمی تک آ گئے

وقت پر یہ فیصلہ چھوڑا کہ عہدِ نو کے لوگ
روشنی میں آ گئے یا روشنی تک آ گئے

کیا ہوا حاصل خرد کی پیروی کرنے کے بعد
گمرہی سے صرف دامِ آگہی تک آ گئے

موسمِ گل سے لئے پھولوں نے رنگیں پیرہن
اور وحشی ہیں کہ وہ جامہ دری تک آ گئے

زندگی دوزخ بھی ہے وہ روکشِ جنت بھی ہے
زندگی سے روٹھ کر پھر زندگی تک آ گئے

گِر گئے گرنا تھے آخر خود فریبی کے مکاں
یہ بھی اچھا ہے نکل کر دشمنی تک آ گئے

دستِ وحشت سے گریباں کا تعلق کچھ تو تھا
قافیے جاتے کہاں حرفِ روی تک آ گئے

____________________ 

Rafi Badayuni Poetry
Ghazal by Rafi Badayuni