ٹھوکریں کھا کر ھم آخر آگہی تک آ گئے
کھوکھلی باتوں سے فرضِ منصبی تک آ گئے
کیوں نہ ہو تشویش مجھ کو دیکھنے کے واسطے
جو کبھی آئے نہ تھے وہ آدمی تک آ گئے
وقت پر یہ فیصلہ چھوڑا کہ عہدِ نو کے لوگ
روشنی میں آ گئے یا روشنی تک آ گئے
کیا ہوا حاصل خرد کی پیروی کرنے کے بعد
گمرہی سے صرف دامِ آگہی تک آ گئے
موسمِ گل سے لئے پھولوں نے رنگیں پیرہن
اور وحشی ہیں کہ وہ جامہ دری تک آ گئے
زندگی دوزخ بھی ہے وہ روکشِ جنت بھی ہے
زندگی سے روٹھ کر پھر زندگی تک آ گئے
گِر گئے گرنا تھے آخر خود فریبی کے مکاں
یہ بھی اچھا ہے نکل کر دشمنی تک آ گئے
دستِ وحشت سے گریباں کا تعلق کچھ تو تھا
قافیے جاتے کہاں حرفِ روی تک آ گئے
____________________
کھوکھلی باتوں سے فرضِ منصبی تک آ گئے
کیوں نہ ہو تشویش مجھ کو دیکھنے کے واسطے
جو کبھی آئے نہ تھے وہ آدمی تک آ گئے
وقت پر یہ فیصلہ چھوڑا کہ عہدِ نو کے لوگ
روشنی میں آ گئے یا روشنی تک آ گئے
کیا ہوا حاصل خرد کی پیروی کرنے کے بعد
گمرہی سے صرف دامِ آگہی تک آ گئے
موسمِ گل سے لئے پھولوں نے رنگیں پیرہن
اور وحشی ہیں کہ وہ جامہ دری تک آ گئے
زندگی دوزخ بھی ہے وہ روکشِ جنت بھی ہے
زندگی سے روٹھ کر پھر زندگی تک آ گئے
گِر گئے گرنا تھے آخر خود فریبی کے مکاں
یہ بھی اچھا ہے نکل کر دشمنی تک آ گئے
دستِ وحشت سے گریباں کا تعلق کچھ تو تھا
قافیے جاتے کہاں حرفِ روی تک آ گئے
____________________
![]() |
| Ghazal by Rafi Badayuni |

هیچ نظری موجود نیست:
ارسال یک نظر