پنجشنبه، دی ۲۸، ۱۳۹۱

غزل : ٹھوکریں کھا کر ھم آخر آگہی تک آ گئے

ٹھوکریں کھا کر ھم آخر آگہی تک آ گئے
کھوکھلی باتوں سے فرضِ منصبی تک آ گئے

کیوں نہ ہو تشویش مجھ کو دیکھنے کے واسطے
جو کبھی آئے نہ تھے وہ آدمی تک آ گئے

وقت پر یہ فیصلہ چھوڑا کہ عہدِ نو کے لوگ
روشنی میں آ گئے یا روشنی تک آ گئے

کیا ہوا حاصل خرد کی پیروی کرنے کے بعد
گمرہی سے صرف دامِ آگہی تک آ گئے

موسمِ گل سے لئے پھولوں نے رنگیں پیرہن
اور وحشی ہیں کہ وہ جامہ دری تک آ گئے

زندگی دوزخ بھی ہے وہ روکشِ جنت بھی ہے
زندگی سے روٹھ کر پھر زندگی تک آ گئے

گِر گئے گرنا تھے آخر خود فریبی کے مکاں
یہ بھی اچھا ہے نکل کر دشمنی تک آ گئے

دستِ وحشت سے گریباں کا تعلق کچھ تو تھا
قافیے جاتے کہاں حرفِ روی تک آ گئے

____________________ 

Rafi Badayuni Poetry
Ghazal by Rafi Badayuni


هیچ نظری موجود نیست:

ارسال یک نظر