یکشنبه، آبان ۰۸، ۱۳۹۰

غزل : بتا نہ منزلِ جاناں کا راستہ مجھ کو

بتا نہ منزلِ جاناں کا راستہ مجھ کو
بہت ہے شوق فراواں کا حوصلہ مجھ کو

خود اپنے شعروں پہ اکثر گماں گزرتا ہے
سنا رہا ہے کوئی جیسے واقعہ مجھ کو

جنوں نواز اداؤں کے روبرو یارو!
نہ اب ہے ضبط کا یارا، نہ حوصلہ مجھ کو

تلاشِ دوست کی راہیں عجیب راہیں ہیں
کہ قربتوں میں بھی لگتا ہے فاصلہ مجھ کو

مرا خلوص مری زندگی کا حصّہ ہے
کسی کا طرز عمل اس سے واسطہ مجھ کو

میں راہِ زیست میں تنہا کبھی نہیں رہتا
کسی کی یادوں کا ملتا ہے قافلہ مجھ کو

پنجشنبه، آبان ۰۵، ۱۳۹۰

غزل : سلوکِ دوست سے بیزار کیا ہوا ہوں میں

سلوکِ دوست سے بیزار کیا ہوا ہوں میں
خیال یہ ہے بلندی سے گر گیا ہوں میں

بدلتے وقت نے ہر چیز کو بدل ڈالا
خلوص ویسا کہاں ہے جو سوچتا ہوں میں

مجھے لگا ہے کہ تحلیل ہو گیا ہے وجود
کبھی جب ان کے خیالوں میں کھو گیا ہوں میں

محبتوں کا حسیں دور آنے والا ہے
یہ رخ بھی ان کی عداوت کا دیکھتا ہوں میں

مرے شعور میں ماحول کی ہے بے چَینی
نواۓ وقت ہوں اک درد کی صدا ہوں میں

شکایتوں میں گنوانے سے اس کو کیا حاصِل
زرا سا وقت ملا ہے تو آ گیا ہوں میں

رہِ حیات کے ہر موڑ پر یہ لگتا ہے
فریب کار کی باتوں میں آ گیا ہوں میں

اب اپنی زیست کی تپتی ہوئی سی راہوں پر
کسی درخت کے ساۓ کو ڈھونڈھتا ہوں میں

مجھے یہ طرز تجاہل عجیب لگتا ہے
وہ کہہ رہے ہیں کہیں آپ سے ملا ہوں میں

جمعه، مهر ۲۹، ۱۳۹۰

غزل : ایسے زردار سے مزدور صلا مانگے ہے

ایسے زردار سے مزدور صلا مانگے ہے
جیسے ظالم سے کوئی خوفِ خدا مانگے ہے

روحِ تخئیل نۓ ناز و ادا مانگے ہے
جسم الفاظ کی رنگین قبا مانگے ہے

دل کے حالات پہ کچھ بس نہیں چلتا ورنہ
راہِ پُرخار ہر اِک آبلہ پا مانگے ہے

زندگی سے جسے کچھ بھی نہ ملا ہو یارو
وہ بھی دیکھا ہے کہ جینے کی دعا مانگے ہے

اک حسیں شعر کی تخلیق کی خاطر شاعر
حسن والوں سے کوئی ناز و ادا مانگے ہے

اس قدر پیار کا انداز ستم میں ہے کہ اب
بے گناہی بھی گناہوں کی سزا مانگے ہے

اپنا ماحول کہ بس جیسے دھوئیں کے بادل
دل وہ آوارہ کہ آزاد فضا مانگے ہے

آج نفرت کے اندھیروں سے پریشاں ہوکر
عشق کے شعلوں سے انسان ضیا مانگے ہے

اس کو مرنے کا نہ جینے کا سلیقہ ہے رفیع
غم سے گھبرا کے جو مرنے کی دعا مانگے ہے

سه‌شنبه، مهر ۱۲، ۱۳۹۰

غزل : نہ دوستوں کو سناؤ نہ اجنبی سے کہو

نہ دوستوں کو سناؤ نہ اجنبی سے کہو
تمہیں ہے مجھ سے شکایت تو پھر مجھ ہی سے کہو

یہ بات کیا ہے کہ ہر شخص کو شکایت ہے
کسی کے کام تو آۓ یہ زندگی سے کہو

کبھی تو جرأتِ رِندانہ کام میں لاؤ
یہ کوئی بات ہے ہر بات بے بسی سے کہو

بھرم اسی میں ہے ترکِ تعلقات کی بات
نہ ہم کسی کو بتائیں نہ تم کسی سے کہو

نیا خیال، نیا طرز لازمی ہے مگر
کچھ ایسی باتیں بھی ہیں جن کو سادگی سے کہو