چهارشنبه، شهریور ۰۲، ۱۳۹۰

غزل : جب جنوں حد سے بڑھا آ گیا ویرانے میں

جب جنوں حد سے بڑھا آ گیا ویرانے میں
عزت نفس تو ہے آپ کے دیوانے میں

زندگی کا وہ کرم ہے کہ زرا فرق نہیں
بادۂ ناب ہو یا زہر ہو پیمانے میں

کچھ تعلق تو ہے باقی کہ کبھی رات گئے
ایک سایہ سا نظر آتا ہے غم خانے میں

ہر حقیقت کو عطا کیجئے حسن تخیل
کچھ حقیقت بھی ملا دیجئے افسانے میں

کسی بے سوچے سے آغاز کا انجام ہے وہ
مدتیں گزریں ہیں جس عقدے کو سلجھانے میں

جو حقائق کے اجالوں کو گوارا نہ ہوئی
قابل ذکر وہی بات تھی افسانے میں

کیا ضروری ہے کہ ہر شخص ہو ممنون کرم
فرق باقی تو رہے اپنے میں بیگانے میں

دوشنبه، مرداد ۳۱، ۱۳۹۰

دل اس سے گریزاں کیوں نہ ہو

احترم لے نہیں، آداب سے نوشی نہیں
یہ ہے میخانہ تو دل اس سے گریزاں کیوں نہ ہو

وقت کو ضد ہے کہ شمع عشق بجھنی چاہیے
دل سمجھنا چاہتا ہے یہ فروزاں کیوں نہ ہو

غزل : جذبۂ حق و صداقت کو دبائیں کیسے

جذبۂ حق و صداقت کو دبائیں کیسے
بات بن جائے مگر بات بنائیں کیسے

اپنی روداد غم عشق سنائیں کیسے
ان سے وابستہ ہیں حالات بتائیں کیسے

لوگ چہرے سے سمجھ لیتے ہیں دل کی حالت
اب ترا راز چھپائیں تو چھپائیں کیسے

حسن تو آج بھی دامن کش دل ہے لیکن
اپنے حالات کو ہم بھول بھی جائیں کیسے

غیر ممکن ہے اندھیرے میں تلاش منزل
روشنی کچھ تو ملے راستہ پائیں کیسے

نعمت درد کبھی لزت غم بخشی ہے
ان کے احسان بھلا بھول بھی جائیں کیسے

بار غم کی بھی کوئی حد ہے زمانے والو!
روز افزوں ہو تو یہ بار اٹھائیں کیسے

یکشنبه، مرداد ۳۰، ۱۳۹۰

غزل : کوئی شریک غم دوستاں نہیں ملتا

کوئی شریک غم دوستاں نہیں ملتا
میں ڈھونڈھتا ہوں مگر مہرباں نہیں ملتا

وہ ان کے لطف و کرم ہوں کہ اپنی تیرہ شبی
فسانۂ غم دوراں کہاں نہیں ملتا

یہ ان کی بزم نہیں ہے یہ بزم رنداں ہے
یہاں کسی سے کوئی بدگماں نہیں ملتا

یہ شہر، شہر ستم گر نہیں تو پھر کیا ہے
سکون دل کسی عنواں یہاں نہیں ملتا

زرا بھی جرأت فرہاد ہو تو دنیا میں
غم و ملال کا کوہ گراں نہیں ملتا

جو میرے ذہن کی تصویر کے مطابق ہو
مجھے تو آج وہ ہندوستاں نہیں ملتا

یہی بہت ہے محبّت کی زندگی کے لئے
وہ مہرباں نہ سہی بدگماں نہیں ملتا

یہ میرا جذب محبت، خلوص مہر و وفا
میں کس کی نزر کروں قدرداں نہیں ملتا

نصیب تجھ کو بھی عرفان غم ہوا ہے رفیع
بیان درد بہ طرز فغاں نہیں ملتا

غزل : ملے ہے جب بھی وہ تنہا لگے ہے

ملے ہے جب بھی وہ تنہا لگے ہے
خود اپنی ذات میں الجھا لگے ہے

خوشی کیا غم بھی کب اپنا لگے ہے
دل اچھا ہو تو سب اچھا لگے ہے

اکیلا کر دیا ہے سب نے مجھ کو
تصور بھی گریزاں سا لگے ہے

ادھر بھی کوئی مجبوری تو ہوگی
کے دل توڑنا اچھا لگے ہے

مجھے دور ترقی میں بھی انساں
شعور و شعر کا پیاسا لگے ہے

زمانے کی ہوا پر کیوں ہو نازاں
ہوا کو رخ بدلتے کیا لگے ہے

خدا شاہد مری حق بیں نظر کو
جو اچھا ہے وہی اچھا لگے ہے

کبھی ہے زندگی غم سے پریشاں
کبھی غم زندگی جیسا لگے ہے

جمعه، مرداد ۲۸، ۱۳۹۰

نعت شریف

جسے ہے عشق وہ پایا گیا مدینے میں
کہ وہ کہیں بھی رہے دل رہا مدینے میں

وہی اثر جو دعا سے کبھی گریزاں تھا
دعا کو ڈھونڈھتا پایا گیا مدینے میں

اکیلے کرنا ہے تم کو یہ واپسی کا سفر
ہمارے دل نے یہ ہم سے کہا مدینے میں

زمیں پہ کوئی بھی ذرّہ نظر نہیں آتا
بچھی ہے تاروں کی ایسی ردا مدینے میں

وہ شوق دید کا عالم عجیب عالم تھا
کہ سایہ جسم سے آگے چلا مدینے میں

خیال روضۂ شاہِ امم کی عمر دراز
کہ اس خیال نے پہنچا دیا مدینے میں

سکون زیست جہاں میں کہیں نہیں ملتا
جو کہہ سکو تو یہ کہنا ذرا مدینے میں

نئی بہار سے آغاز دن کا ہوتا ہے
ہر ایک روز ہے منظر نیا مدینے میں

دعا کے ہاتھوں سے چہرہ چھپا رہا تھا رفیع
گناہگار تھا کرتا بھی کیا مدینے میں