جمعه، تیر ۰۹، ۱۳۹۱

غزل : وطن پرست نہ جاۓ وطن کو ترسے گا

وطن پرست نہ جاۓ وطن کو ترسے گا
بہار و وادیِ گنگ و جمن کو ترسے گا

خرد کے شہر کی آسودگی میں جو بھی رہا
جنوں کے دور کے دیوانہ پن کو ترسے گا

زباں پہ خوف کے پہرے جہاں بٹھاۓ گئے
خیال جرأت اظہار فن کو ترسے گا

مزاج ِ حسن ستم آشنا رہے ورنہ
زمانہ ظلم کی رسم ِ کہن کو ترسے گا

خوشی جو حد سے بڑھے گی تو یہ بھی دیکھیں گے
کھ خوش نصیب بھی رنج و محن کو ترسے گا

شعور ِ زیست اسیر ِ ہوس نہ ہو ورنہ
مذاق جذبۂ دار و رسن کو ترسے گا

نظام ِ زر میں بھی کچھ قدر تو رہے گی رفیعٌ
مزاج ِ حسن مگر بانکپن کو ترسے گا
______________
 
Rafi Badayuni
Rafi Bakhsh Qadiri Rafi Badayuni
 

جمعه، خرداد ۲۶، ۱۳۹۱

غزل : تنویر رخ کے گرد بھی زنجیر کھینچ لیں

تنویر ِ رخ کے گرد بھی زنجیر کھینچ لیں
چہرہ پہ وہ جو زلفِ گرہ گیر کھینچ لیں

تحریر خون ِ دل سے بھی لکھ دیں تو کیا ہوا
ممکن کہاں کہ درد کی تصویر کھینچ لیں

لوگوں کے قد بلند نظر آئیں گے ہمیں
بس دل سے ایک جذبۂ تحقیر کھینچ لیں

ہم تلخی ِ حیات کو سوچیں تو کیا لکھیں
الفاظ بات بات پہ شمشیر کھینچ لیں

دیکھیں کسی کا عیب یہ اچھا نہیں رفیعٌ
بہتر ہے اپنی آنکھ کا شہتیر کھینچ لیں
_________________
-
Rafi Bakhsh Qadiri Rafi Badayuni

شنبه، خرداد ۱۳، ۱۳۹۱

غزل : کبھی وہ خود سے بھی برہم دکھائی دیتا ہے

کبھی وہ خود سے بھی برہم دکھائی دیتا ہے
کبھی وہ لطف مجسّم دکھائی دیتا ہے

زمانہ ہوتا ہے مجبور رخ بدلنے پر
کسی کا عزم جو محکم دکھائی دیتا ہے

عروس دہر کی رنگینئ ِ جمال میں اب
ترے شباب کا عالم دکھائی دیتا ہے

تلاش ِ دوست مسافت ہے ایک لامحدود
کہ جس قدر بھی چلیں کم دکھائی دیتا ہے
___________________ 

Rafi Bakhsh Qadri Rafi Badayuni