غزل
حلقۂ گیسوۓ خم دار سے آگے نہ بڑھے
ہم کبھی ذکرِ غمِ یار سے آگے نہ بڑھے
وہ بھی تھے تذکرۂ دار سے آگے نہ بڑھے
اُن کا معیار تھا معیار سے آگے نہ بڑھے
ٹھوکریں جہدِ مسلسل کی بڑھاتی ہیں انھیں
میرے حالات کبھی پیار سے آگے نہ بڑھے
ہم سے ٹکراتے رہے آکے جہاں کے غم تھے
بادل اٹھے بھی تو کہسار سے آگے نہ بڑھے
قید آنکھوں میں وہی ایک ہے منظر اب تک
ہم کبھی جلوہ گہۂ یار سے آگے نہ بڑھے
اک اچٹتی سی نظر دل کے لئے کافی تھی
وار مخصوص تھا، اک وار سے آگے نہ بڑھے
گھر سے باہر کبھی نکلے نہ تماشہ دیکھا
لوگ جب ذات کی دیوار سے آگے نہ بڑھے
رفیع بخش قادری رفیع بدایونی
حلقۂ گیسوۓ خم دار سے آگے نہ بڑھے
ہم کبھی ذکرِ غمِ یار سے آگے نہ بڑھے
وہ بھی تھے تذکرۂ دار سے آگے نہ بڑھے
اُن کا معیار تھا معیار سے آگے نہ بڑھے
ٹھوکریں جہدِ مسلسل کی بڑھاتی ہیں انھیں
میرے حالات کبھی پیار سے آگے نہ بڑھے
ہم سے ٹکراتے رہے آکے جہاں کے غم تھے
بادل اٹھے بھی تو کہسار سے آگے نہ بڑھے
قید آنکھوں میں وہی ایک ہے منظر اب تک
ہم کبھی جلوہ گہۂ یار سے آگے نہ بڑھے
اک اچٹتی سی نظر دل کے لئے کافی تھی
وار مخصوص تھا، اک وار سے آگے نہ بڑھے
گھر سے باہر کبھی نکلے نہ تماشہ دیکھا
لوگ جب ذات کی دیوار سے آگے نہ بڑھے
رفیع بخش قادری رفیع بدایونی
________________________________
![]() |
| A Ghazal by Rafi Badayuni |
Find him of Facebook.

قید آنکھوں میں وہی ایک ہے منظر اب تک، ہم کبھی جلوہ گہۂ یار سے آگے نہ بڑھے.... واہ واہ، بہت خوب. ماشااللہ.
پاسخ دادنحذف