شنبه، اردیبهشت ۰۲، ۱۳۹۱

غزل : دشتِ جنوں ہے رنج کا خوگر ہی لے چلیں

دشتِ جنوں ہے رنج کا خوگر ہی لے چلیں
مجبور ہیں کہ ہم دلِ مضطر ہی لے چلیں

بربادیوں کا جشن منانے کے واسطے
دور ِ خزاں سے مانگ کے منظر ہی لے چلیں

معلوم گھر کی بے سروسامانیاں نہ ہوں
کچھ لوگ آگئے ہیں تو دفتر ہی لے چلیں

یادوں کے گھر میں آج بسر کیسے ہوگی رات
ٹوٹی ہوئی امید کے ساغر ہی لے چلیں

خوشبو کسی کے قرب کی آتی رہے رفیعٌ
دل میں خیالِ زلفِ معطر ہی لے چلیں
___________
 
 
Ghazal by Rafi Badayuni
 

دوشنبه، فروردین ۲۸، ۱۳۹۱

غزل : سخت آئینِ وفا ہوں گے تو کیا رہ جاۓ گا

سخت آئینِ وفا ہوں گے تو کیا رہ جاۓ گا
صرف باقی ایک معیار و وفا رہ جاۓ گا

واسطہ تعبیر سے کیا خواب کا رہ جاۓ گا
جب بھی قول و فعل میں کچھ فاصلا رہ جاۓ گا

واسطہ کوئی عمل سے اس کا کیا رہ جاۓ گا
سوچنا عادت ہے جس کی سوچتا رہ جاۓ گا

نقش پا سب وقت کے ہاتھوں سے مٹ سکتے نہیں
راہ میں روشن کہیں تو اک دیا رہ جاۓ گا

اس نظام ِزندگی میں کس کو اتنی فکر ہے
میں اگر آگے بڑھا تو دوسرا رہ جاۓ گا

صرف رشتے توڑ دینا مسئلہ کا حل نہیں
حل نہیں ڈھونڈا تو باقی مسئلہ رہ جاۓ گا

الجھنوں کے کتنے لامحدود رشتے دل سے ہیں
مبتلا جو ہو گیا وہ مبتلا رہ جاۓ گا

دل کی بربادی ضروری اس لئے بھی ہے رفیعٌ
زندگی کی داستاں میں اک خلا رہ جاۓ گا
_______________
 
Ghazal by Rafi Bakhsh Qadri 'Rafi' Badayuni