یکشنبه، آذر ۰۶، ۱۳۹۰

غزل : بیانِ درد بہ ایں حالِ زار کیا ہوگا

بیانِ درد بہ ایں حالِ زار کیا ہوگا
نہ مجھ کو ہوش نہ دل کو قرار کیا ہوگا

شکستِ بندوسلاسل کی اک صدا کے سوا
کوئی پیام بہ نامِ بہار کیا ہوگا

محبتوں کے یہ بادل بہ شکل دیدہٴ تر
برس بھی جائیں سرِ کوہسار کیا ہوگا

ترے سلوک سے ایسا نہ ہو کہ دیوانے
یہ سوچنے لگیں انجام کار کیا ہوگا

نظر سے ہم سنایا ہے دل کا حال رفیع
اب اس سے بڑھ کے کوئی اختصار کیا ہوگا
_________


چهارشنبه، آذر ۰۲، ۱۳۹۰

غزل : خفا ہے کوئی کسی سے نہ کوئی بدظن ہے

خفا ہے کوئی کسی سے نہ کوئی بدظن ہے
ہر ایک شخص یہاں آپ اپنا دشمن ہے

کسی غریب کا گھر ہے بس اور کیا کہئے
یہ میرا دل جو سبھی آفتوں کا مسکن ہے

وہ زندگی جسے خونِ جگر دیا میں نے
وہ زندگی تو مرے نام سے بھی بدظن ہے

خدا کا شکر ہے غم کی ہواؤں میں بھی رفیع
چراغِ زبست بہرحال آج روشن ہے
__________


جمعه، آبان ۲۷، ۱۳۹۰

نظریں اٹھائیں بھی تو محافظ تھی احتیاط

نظریں اٹھائیں بھی تو محافظ تھی احتیاط
شائستہ جنوں وہ اشارا نہ ہو سکا

امید کے بغیر بھی جینا محال تھا
امید ہی پہ صرف گزارا نہ ہو سکا



غزل : اپنے غرور و ناز پہ شرما گئی ہَوا

اپنے غرور و ناز پہ شرما گئی ہَوا
دیکھا خرامِ ناز تو گھبرا گئی ہَوا

اک آن میں نسیم ہے اک آن میں سموم
شاید مزاجِ یار سے شہ پا گئی ہَوا

لگتا ہے جیسے سانس بھی لیتی نہیں فضا
یہ کس کے انتظار میں پتھرا گئی ہَوا

چھائی گھٹا تو یادوں سے جلنے لگا بدن
بارش ہوئی تو آگ سی برسا گئی ہَوا

لائی پیامِ یار کبھی بوۓ پیرہن
تسکین دے گئی کبھی تڑپا گئی ہوا

بدمست ہوکے جیسے کوئی رند آ گیا
چھو کر کسی کے ہونٹوں کو یاد آ گئی ہَوا

وہ ضد ہے روشنی سے کہ الله کی پناہ
روشن جہاں چراغ ہوا آ گئی ہَوا