بیانِ درد
بہ ایں حالِ زار کیا ہوگا
نہ مجھ کو
ہوش نہ دل کو قرار کیا ہوگا
شکستِ
بندوسلاسل کی اک صدا کے سوا
کوئی پیام
بہ نامِ بہار کیا ہوگا
محبتوں کے
یہ بادل بہ شکل دیدہٴ تر
برس بھی
جائیں سرِ کوہسار کیا ہوگا
ترے سلوک
سے ایسا نہ ہو کہ دیوانے
یہ سوچنے
لگیں انجام کار کیا ہوگا
نظر سے ہم
سنایا ہے دل کا حال رفیع
اب اس سے
بڑھ کے کوئی اختصار کیا ہوگا


