غزل
مری نگاہ کو حسنِ جہاں پکارے گا
مرے شعور کو عزمِ جواں پکارے گا
چمن سے اٹھ کے چلے جائیں گے جو دیوانے
بہار روئے گی خود باغباں پکارے گا
وہ جس کے ظرف سے قائم ہے میکدے کا نظام
نظر نہ آئے تو پیرِ مغاں پکارے گا
نظر ملا نہ سکے گا عمل سے جب بھی یقیں
تو اس یقین کو اکثر گماں پکارے گا
ہر ایک چہرہ کو یوں دیکھتا رہا ہے رفیع
کہ جیسے اس کو کوئی مہرباں پکارے گا
رفیع بخش قادری بدایونی

هیچ نظری موجود نیست:
ارسال یک نظر