پنجشنبه، تیر ۰۵، ۱۳۹۳

غزل : جمال یار جو اپنی خودی کی قید میں ہے

غزل

جمال یار جو اپنی خودی کی قید میں ہے
وہی جمال مری شاعری کی قید میں ہے

خرد کے شہر کے لوگوں کو کیسے سمجھائیں
سکونِ زیست تو آوارگی کی قید میں ہے

وہ حق پرست نہیں ہے کچھ اور اس کو کہو
وہ حق پرست جو بے چارگی کی قید میں ہے

کہاں سے آئے توازن کہ زندگی یارو!
اسیر ِغم ہے کبھی یہ خوشی کی قید میں ہے

یہ اُن کے نام کی برکت نہیں تو کیا ہے رفیعٌ
اثر دعا میں کبھی بندگی کی قید میں ہے

رفیع بدایونی
_____________________

Rafi Badayuni Urdu Poetry
A Ghazal by Rafi Bakhsh Qadiri Rafi Badayuni

Find him on Facebook.

دوشنبه، خرداد ۱۲، ۱۳۹۳

غزل : حلقۂ گیسوۓ خم دار سے آگے نہ بڑھے

غزل

حلقۂ گیسوۓ خم دار سے آگے نہ بڑھے
ہم کبھی ذکرِ غمِ یار سے آگے نہ بڑھے

وہ بھی تھے تذکرۂ دار سے آگے نہ بڑھے
اُن کا معیار تھا معیار سے آگے نہ بڑھے

ٹھوکریں جہدِ مسلسل کی بڑھاتی ہیں انھیں
میرے حالات کبھی پیار سے آگے نہ بڑھے

ہم سے ٹکراتے رہے آکے جہاں کے غم تھے
بادل اٹھے بھی تو کہسار سے آگے نہ بڑھے

قید آنکھوں میں وہی ایک ہے منظر اب تک
ہم کبھی جلوہ گہۂ یار سے آگے نہ بڑھے

اک اچٹتی سی نظر دل کے لئے کافی تھی
وار مخصوص تھا، اک وار سے آگے نہ بڑھے

گھر سے باہر کبھی نکلے نہ تماشہ دیکھا
لوگ جب ذات کی دیوار سے آگے نہ بڑھے

رفیع بخش قادری رفیع بدایونی

________________________________

Rafi Badayuni Urdu Poetry
A Ghazal by Rafi Badayuni
Find him of Facebook.