غزل
جمال یار جو اپنی خودی کی قید میں ہے
وہی جمال مری شاعری کی قید میں ہے
خرد کے شہر کے لوگوں کو کیسے سمجھائیں
سکونِ زیست تو آوارگی کی قید میں ہے
وہ حق پرست نہیں ہے کچھ اور اس کو کہو
وہ حق پرست جو بے چارگی کی قید میں ہے
کہاں سے آئے توازن کہ زندگی یارو!
اسیر ِغم ہے کبھی یہ خوشی کی قید میں ہے
یہ اُن کے نام کی برکت نہیں تو کیا ہے رفیعٌ
اثر دعا میں کبھی بندگی کی قید میں ہے
رفیع بدایونی
_____________________
![]() |
| A Ghazal by Rafi Bakhsh Qadiri Rafi Badayuni |
Find him on Facebook.

