پنجشنبه، فروردین ۱۰، ۱۳۹۱

غزل : دلِ وحشی روایاتِ جنوں کا صرف قائل تھا

دلِ وحشی روایاتِ جنوں کا صرف قائل تھا
نہ دنیا اس سے واقف تھی نہ وہ دنیا کے قابل تھا

ستم کا کوئی خوگر تھا نہ کوئی شخص بسمل تھا
جو ہر چہرے سے ڈرتا تھا وہ خود ہی اپنا قاتل تھا

غموں کے راستے سے شہر ِ الفت تک تو آ جاتے
ضرورت اس کی سب کو تھی مگر احساس مشکل تھا

چمن کو دیکھنے کچھ لوگ آئے تھے وہ کہتے تھے
یہاں کچھ پھول ہنستے تھے یہاں شور ِ عنادل تھا

کرم فرما ہی ہوگا خندہ زن تھا جو تباہی پر
بہت سے لوگ تھے یہ کیا بتائیں کون شامل تھا

ادھورے تبصرے سب تھے تباہی پر مری لیکن
نگاہِ ناز نے جو کچھ کہا وہ سیر ِ حاصل تھا

شکایت وقت سے حالات سے کرتے تو کیوں کرتے
حریفوں میں ہمارے جب ہمارا دل بھی شامل تھا

ہزاروں حادثوں کا داستانوں کا فسانوں کا
کوئی عنواں اگر قائم کیا جاتا تو بس دل تھا
________________

Ghazal by Rafi Badayuni
 

چهارشنبه، اسفند ۲۴، ۱۳۹۰

غزل : وہ کبھی کارگر نہیں ہوتی

وہ کبھی کارگر نہیں ہوتی
بات جو مختصر نہیں ہوتی

لوگ مرعوب ہو تو جاتے ہیں
قدر بے داد گر نہیں ہوتی

نفرتوں کی فصیل حائل ہے
دل کی دل کو خبر نہیں ہوتی

دل کے جلنے کی بات عام ہوئی
روشنی کس کے گھر نہیں ہوتی

تشنہ رہتا مرا مذاقِ سفر
دور منزل اگر نہیں ہوتی

وہ قیامت کی رات ہوتی ہے
جب امیدِ سحر نہیں ہوتی

مسکراہٹ پہ جبر، دھوپ تو ہے
رونقِ بام و در نہیں ہوتی

فرق طرزِ عمل سے ہوتا ہے
ضد کسی بات پر نہیں ہوتی

زخم راحت اثر تو ہو جائے
زحمتِ یک نظر نہیں ہوتی

گھر سجائیں تو کس لئے کہ رفیعٌ
ہر خبر معتبر نہیں ہوتی
_____________

Ghazal by Rafi Badayuni