غزل
اب کرم ہو کہ یہ اتمامِ کرم رہنے دے
دلِ مجبور میں کچھ حسرتِ غم رہنے دے
دلِ مجبور میں کچھ حسرتِ غم رہنے دے
کوئی رہتا ہے جو با دیدۂ نم رہنے دے
بارِ خاطر ہے اگر لطف و کرم، رہنے دے
بارِ خاطر ہے اگر لطف و کرم، رہنے دے
کوچۂ یار سے پھر یادوں کی خوشبو آئی
تذکرہ خلد کا اے شیخِ حرم رہنے دے
تذکرہ خلد کا اے شیخِ حرم رہنے دے
شوق کی راہ میں حالات کے رخ کو بھی سمجھ
ضبط سے کام بھی لے، اگلا قدم رہنے دے
ضبط سے کام بھی لے، اگلا قدم رہنے دے
آشنا لذتِ آزاد سے وہ بھی، دل بھی
کس طرح اس سے کہیں، مشقِ ستم رہنے دے
کس طرح اس سے کہیں، مشقِ ستم رہنے دے
مسکراہٹ کے حجابوں میں چھپانے والے
غم نمایاں ہی رہے گا اسے غم رہنے دے
غم نمایاں ہی رہے گا اسے غم رہنے دے
جو حوادث کے اندھیروں میں بھی بے نور نہ ہو
یاد کے سینے پہ وہ نقشِ قدم رہنے دے
یاد کے سینے پہ وہ نقشِ قدم رہنے دے
ٹیڑھی ترچھی سی وہ قسمت کی لکیریں ہیں رفیع
جس طرح کوئی حسیں زلف میں خم رہنے دے
جس طرح کوئی حسیں زلف میں خم رہنے دے
رفیع بخش قادری بدایونی
~:~~:::~~:~
![]() |
| Urdu Ghazal by Rafi Bakhsh Qadiri 'Rafi Badayuni' |
___________________________________________________
You may read Rafi Badayuni on FACEBOOK too.
_________________________________________
_______________________________
