ساحل یہ کہہ رہے ہیں کہ بچ کر رہے ہیں ہم
موجیں یہ کہہ رہی ہیں سمندر رہے ہیں ہم
اوڑھے ہوئے فریب کی چادر رہے ہیں ہم
دیکھا جو آج خود کو تو ششدر رہے ہیں ہم
اپنی انا نے وقت سے ملنے نہیں دیا
یعنی خود اپنی راہ میں پتھر رہے ہیں ہم
معلوم یہ ہوا کہ شکایت سبھی کو ہے
مدت کے بعد آج جو گھر پر رہے ہیں ہم
ان کے بدن کو چھو کے جو آتی رہی ہوا
خوشبو سے اس بدن کی معطر رہے ہیں ہم
منزل شناس کون ہے یہ کون طے کرے
ہر شخص کہہ رہا ہے کہ رہبر رہے ہیں ہم
دامن بھرا ہے زخم کے پھولوں سے، کیا ہوا
عزت مآب بن کے سخنور رہے ہیں ہم
