سه‌شنبه، آبان ۱۶، ۱۳۹۱

غزل : اس حقیقت کو بتا دیں تو برا لگتا ہے

اس حقیقت کو بتا دیں تو برا لگتا ہے
واقعی کوئی ہے کیا اور وہ کیا لگتا ہے

میں نے پہچان لیا منه کو چھپانا بے سود
یہ کوئی اور نہیں زعمِ وفا لگتا ہے

مصلحت ساز دباتے رہیں دل کی آواز
جو برا ہے وہ بہرحال برا لگتا ہے

ہم بھی اغیار بھی زندہ ہیں اس امید کے ساتھ
رخ بدلتے ہوئے انسان کو کیا لگتا ہے

دل کے رشتوں پہ کوئی حرف نہ آنے پائے
بات سچی ہی سہی مجھ کو برا لگتا ہے

ایک کانٹا جو پکڑ لیتا ہے دامن اکثر
آپ مانیں گے نہیں عہد و وفا لگتا ہے

ڈوب بھی جاتا ہے موجوں سے الجھنے والا
یہ بھی دیکھا ہے کنارے سے بھی جا لگتا ہے

حشر ساماں ہے یہ احساس کی شدت کہ مجھے
دل بھی منجملہٴ ارباب و وفا لگتا ہے

کم سے کم اتنا تو احباب بھی کہتے ہیں رفیعٌ
تیرا اندازِ بیاں سب سے جدا لگتا ہے
_____________________

Urdu Poetry by Rafi Badayuni
Ghazal By Rafi Badayuni