جمعه، مهر ۰۸، ۱۳۹۰

غزل : اس دَورمیں نہ کیوں کوئی حیراں دکھائی دے

اس دَور میں نہ کیوں کوئی حیراں دکھائی دے
آسودہ حال جب کوئی انساں دکھائی دے

سہمی ہوئی سی کیوں ہے یہ دوشیزہء حیات
کوئی ادا تو حشر بہ داماں دکھائی دے

منزل کی آرزو ہے تو منزل ہو سامنے
طوفاں دکھائی دے نہ بیاباں دکھائی دے

اظہار آرزو تو کریں اس سے ہم رفیع
اظہار آرزو کا جو امکاں دکھائی دے

پنجشنبه، شهریور ۲۴، ۱۳۹۰

غزل : کہ زندگی کا تصور ہے زندگی کی طرح

کوئی روش تو ہو اپنی بھی اس سے کیا حاصل
کبھی کسی کی طرح ہیں کبھی کسی کی طرح

وصال روح نہیں ہے تو دل کی بے چینی
کچھ اور بڑھتی ہے احساس تشنگی کی طرح

حیات عشق میں ایسا بھی دور آتا ہے
کہ التفات بھی لگتا ہے بے رخی کی طرح

وفور شوق کا عالم ارے معاذ الله
کہ زندگی کا تصور ہے زندگی کی طرح

جمعه، شهریور ۱۱، ۱۳۹۰

غزل : ایک میں پیکرِ تسلیم و رضا ہو جیسے

ایک میں پیکرِ تسلیم و رضا ہو جیسے
ایک تم دشمنِ ارباب وفا ہو جیسے

یوں مجھے ان کی عنایت کا خیال آتا ہے
ایک افسانہ کبھی میں نے پڑھا ہو جیسے

زندگی اتنی گراں بار نظر آتی ہے
ایک مجرم کے لئے کوئی سزا ہو جیسے

دل کے گوشے میں تمناؤں کی فریادیں ہیں
یا کہیں رات گئے شور اٹھا ہو جیسے

ایسے بیگانۂ حالات وہ رہتے ہیں رفیع
کچھ کیا ہو نہ کہا ہو نہ سنا ہو جیسے